ووٹ کی شرعی حیثیت

1207

ووٹ کے معنی ہیں: ’’کسی منصب کے لیے دو یا زیادہ امیدواروں میں سے خفیہ بیلٹ کے ذریعے یا ہاتھ اٹھاکر کسی ایک امیدوارکا چنائوکرنا یا مختلف پالیسیوں یا اقدامات میں سے کسی ایک کا چنائو کرنا‘‘۔ ووٹ ایک جدید اصطلاح ہے، عہدِ رسالت مآبؐ، عہدِ خلافتِ راشدہ اور قرونِ اُولیٰ میں اس کے ہم معنی کوئی اصطلاح رائج نہیں ہوئی، یہ جدید جمہوری دور کی اصطلاح ہے۔ عہدِ رسالت مآبؐ، عہدِ خلافت راشدہ اور بعد کے ادوار میں ہمیں ’’بیعت‘‘ کی اصطلاح ملتی ہے، یہ ہاتھ میں ہاتھ دے کر پیمانِ وفا کرنے کا نام ہے، اس کا ذکر قرآن وحدیث میں بھی ہے۔ عہدِ رسالت میں مختلف مواقع پر بیعت کی مندرجہ ذیل صورتیں ہمیں ملتی ہیں: (1) قبولِ اسلام کے لیے ’’بیعت علی الاسلام‘‘، (۲) ہجرت کے موقع پر ’’بیعت علی الہجرۃ ‘‘، (۳) جہاد کے موقع پر ’’بیعت علی الجہاد‘‘، سلمہ بن اکوع سے نبیؐ نے دو مرتبہ جہاد پر بیعت لی، ’’یزید بن ابی عبید کہتے ہیں: میں نے سلمہ سے کہا: آپ کس چیز پر بیعت کرتے تھے، انہوں نے کہا: موت پر‘‘۔ (بخاری) (۴) ایک بیعت مُحرَّمات ومُنکَرات کے ترک کرنے اور مامورات پر عمل کرنے کے بارے میں تھی، جو الممتحنہ: 12 میں مذکور ہے اور اسے ’’بیعتِ مومنات‘‘ بھی کہا جاتا ہے، مگر یہ مومنات کے ساتھ خاص نہیں ہے، عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بیعتِ عقبہ اُولیٰ کے موقعے پر رسول اللہؐ سے عورتوں والی بیعت کی، کیونکہ اس وقت تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا۔ رسول اللہؐ کے بعد بیعتِ امارت یا بیعتِ خلافت تھی، جوکئی صدیوں تک رائج رہی۔

خلفائے راشدین بیعتِ عام مسجد نبوی میں لیتے تھے، اُس کی حیثیت آج کے Vote of Confidence یعنی اعتماد کے ووٹ کی تھی۔ فرق یہ ہے کہ رسول اللہؐ کی بیعت غیر مشروط تھی، انبیائے کرام اللہ تعالیٰ کے چنیدہ ہوتے ہیں، اُن کے علم کا منبع وحیِ ربّانی ہوتا ہے، لہٰذا اُن کے احکام کو رد کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے، جبکہ اُولِی الامر یاحاکمِ وقت کی اطاعت قرآن وسنت کی موافقت کے ساتھ مشروط ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے میں سے صاحبانِ اختیار واقدار کی، پس اگر تمہارا ان سے کسی چیز میں اختلاف ہوجائے، تو اُس (درپیش مسئلے) کو اللہ اور اس کے رسول (یعنی قرآن وسنت) کی طرف لوٹادو‘‘۔ (النسآء: 59) اللہ تعالیٰ کی منشا قرآن سے اور رسول اللہؐ کی منشا حدیث سے معلوم ہوگی، یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہؐ کی منشا ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جس نے رسول کی اطاعت کی، اُس نے (درحقیقت) اللہ (ہی) کی اطاعت کی‘‘، (النسآء: 80) ہمارے موجودہ دستوری نظام میں بھی حاکم کا حکم اگر آئین وقانون کے خلاف ہو، تو اُسے عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور جس کا موقف آئین وقانون کے مطابق ہوگا، عدالت اُس کے حق میں فیصلہ دے گی، اس کا مطلب یہ ہے: حاکمِ وقت کا ہر حکم مطلقاً حجت نہیں ہوتا۔

اس سے قطع نظر کہ مطلق جمہوریت کی شرعی حیثیت کیا ہے، جدید دور میں مختلف سطح کے قانون ساز اداروں کے ارکان، وزرائے اعظم اور صدور کا انتخاب ووٹ کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ بعض مناصب کے انتخابات بالواسطہ اور بعض کے بلاواسطہ ہوتے ہیںاور رائے دہندہ (Voter) کے لیے کم از کم عمر کی شرط ہوتی ہے، تعلیم یا صداقت و دیانت کی کوئی شرط نہیں ہوتی۔ عام انتخابات میں ہر ادنیٰ واعلیٰ، عالم وجاہل، دیانت دار اور بد دیانت کی رائے کا وزن برابر ہوتا ہے۔

موجودہ دور کے علماء میں سے علامہ مفتی محمد شفیع صاحب نے اپنی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں ووٹ کی شرعی حیثیت پر بحث کی ہے اور انہوں نے ووٹ کو شہادت کا درجہ دیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں (۱): ’’خصوصاً اسمبلیوں اور کونسلوں میں کسی امیدوار کو ووٹ دینا بھی ایک شہادت ہے، جس میں ووٹ دینے والا اسی بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے نزدیک یہ امیدوار اپنی قابلیت اور دیانت وامانت کے اعتبار سے قومی نمائندہ بننے کے قابل ہے‘‘۔ وہ لکھتے ہیں (۲): ’’اسی طرح امتحانات میں طلبہ کے پرچوں پر نمبر لگانا بھی ایک شہادت ہے، اگر جان بوجھ کر یا بے پروائی سے نمبروں میں کمی بیشی کردی، تو یہ جھوٹی شہادت ہے، جوحرام اور سخت گناہ ہے‘‘۔ وہ لکھتے ہیں: (۳) ’’قرآن کی رُو سے نمائندوں کے انتخاب کے لیے ووٹ دینے کی ایک اور حیثیت بھی ہے، جس کو سفارش کہا جاتا ہے: گویا ووٹ دینے والا یہ سفارش کرتا ہے کہ فلاں امیدوار کو نمائندگی دی جائے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جو شخص اچھی سفارش کرے گا، تو (نیک کاموں میں) اس کا بھی حصہ ہوگا اور جو بری سفارش کرے گا، تو (برے کاموں میں) اُس کا برابر کا حصہ ہوگا‘‘۔ (النسآء: 85)

وہ لکھتے ہیں: (۵) ’’ووٹ کی تیسری حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا کسی امیدوار کو اپنی نمائندگی کے لیے وکیل بناتا ہے، اگر یہ وکالت قومی امور کی انجام دہی کے لیے ہے، توکسی نا اہل کو وکیل بنانا پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کے مترادف ہے‘‘۔ خلاصہ یہ کہ ووٹ کی تین حیثیتیں ہیں: ایک شہادت، دوسری شفاعت، تیسری مشترکہ حقوق میں وکالت، پس نا اہل اور بے دین کو ووٹ دینا بیک وقت جھوٹی شہادت، بری سفارش اور ناجائز وکالت ہے، اس کے تباہ کن نتائج کا ذمے دار ووٹ دینے والا بھی ہوگا‘‘۔ (معارف القرآن)

ہماری رائے میں مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر ووٹ کی یہ حیثیتیں محلِ نظر ہیں: جس قضا یا عدالت میں گواہی دی جاتی ہے، اُسے اُس کے ردو قبول کا اختیار ہوتا ہے، جبکہ جائز ووٹ کو الیکشن کا عملہ یا ریٹرننگ آفیسر رد نہیں کرسکتا۔ اسی طرح کسی کے حق میں سفارش کی جائے، تو جس کے پاس سفارش کی جارہی ہے، شریعت کی رُو سے اُسے اُس کے رد وقبول کا اختیار ہوتا ہے، جو حدیثِ پاک سے ثابت ہے، لیکن پولنگ اسٹیشن کا پریزائڈنگ آفیسر یا عملہ یا ریٹرننگ آفیسر ازروئے قانون کسی جائز ووٹ کو رد کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اسی طرح موکِّل اپنے وکیل کو معزول کرنے کا اختیار رکھتا ہے، جب کہ ووٹ دیتے ہی مؤثر ہوجاتا ہے، اس کے بعد ووٹر نہ اپنے امیدوار کو معزول کرسکتا ہے اور نہ اپنے ووٹ کو منسوخ کرسکتا ہے۔ منتخب امیدوار کی نا اہلی کو جانچنے اور نا اہلی کی بنیاد پر معزول کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن یا الیکشن ٹرائبونل یا اعلیٰ عدالتوں کے پاس ہوتا ہے، ووٹرز کے پاس نہیں ہوتا۔

پس ہماری رائے میں ووٹ قضا ہے، جس طرح ہمارے نظامِ عدالت میں ماتحت عدالتوں میں ایک جج فیصلہ کرتا ہے، مگر ہائی کورٹ اور عدالت عظمیٰ میں فیصلہ کبھی ایک جج کرتا ہے، اسے Single Bench کہتے ہیں، کبھی دو جج کرتے ہیں، اسے Division Bench کہتے ہیں یا تین اوراس سے زیادہ جج کرتے ہیں، اسے Larger Bench کہتے ہیں اور اگر کبھی عدالت کے تمام جج صاحبان کسی مقدمے کا فیصلہ کرنے بیٹھ جائیں، تو اسے Full Court کہا جاتا ہے۔ دو ججوں کی رائے مختلف ہوجائے تو ریفری جج مقرر کیا جاتا ہے، دو سے زیادہ ججوں پر مشتمل بنچ کی صورت میں اگر ان کے درمیان اتفاقِ رائے نہ ہوسکے تو کثرتِ رائے سے فیصلہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک حلقۂ انتخاب میں کل ووٹروں کی مثال ایک جیوری یا عدالت کی ہے، اگر ووٹ ازروئے قانون درست ہے، تو اُسے کوئی رد نہیں کرسکتا، اگر کرے گا تو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ ملکی قانون میں انتخاب کے موقع پر جو ووٹر انتخاب میں حصہ نہیں لیتے، وہ اپنے حقِ قضا سے محروم ہوجاتے ہیں اور جو حصہ لیتے ہیں، اُن کی رائے قضا میں شامل ہوتی ہے اورفل کورٹ کی طرح اکثریت کا فیصلہ جس امیدوار کے حق میں آئے، وہ منتخب ہوجاتا ہے۔ امیدوار کو کسی بھی درجے کے امتحان یاکسی منصب کے امتحان میں کامیاب یا ناکام قرار دینا بھی قضا ہے، اسی طرح وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن یا کسی بھی سلیکشن بورڈ کی حیثیت بھی قضا کی ہے۔ البتہ علامہ مفتی صاحب کی اس رائے سے ہمیں کامل اتفاق ہے: ’’پرائمری تا پی ایچ ڈی کسی بھی تعلیمی درجے میں کامیاب طالب علم کو سند دینا اس امر کی شہادت ہے کہ وہ مطلوبہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس علمی قابلیت کا حامل ہے، سو اگر کسی کو مطلوبہ امتحان میں کامیابی حاصل کیے بغیر سند دی گئی ہے، تو یہ شہادتِ کاذبہ ہے، حرام ہے اور گناہ ہے‘‘۔ پس طالب علم یا امیدوار کو اس درجے کے امتحان میں کامیاب یا ناکام قرار دینا قضا ہے اور اُس کی سند شہادت ہے۔ اگر ووٹر اپنی قضا میں خیانت کرتا ہے، تو اس کے بارے میں شدید وعید آئی ہے:

’’عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: اگرصاحبِ اختیار نے یہ جاننے کے باوجود کہ (منصب کے لیے) کتاب اللہ اور سنتِ رسول کا زیادہ علم رکھنے والا بہتر شخص موجود ہے، کسی (جاہل اور خائن) کو عامل بنایا تو اس نے اللہ، اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی‘‘۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی) آپؐ نے فرمایا: ’’جس کو لوگوں پر قاضی بنایا گیا، اُس کو (گویا) بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا‘‘۔ (سنن ترمذی) بغیر چھری کے ذبح کیے جانے سے مراد کسی ایسے کند آلے سے ذبح کرنا ہے جس کی تکلیف ناقابلِ تصور ہے۔ نبیؐ نے فرمایا (۱): قاضیوں کی تین قسمیں ہیں: ایک جنت میں ہوگا اور دو جہنم میں ہوں گے۔ جنت میں وہ شخص ہوگا جس کو حق کا علم ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلہ بھی کرے۔ جس شخص کو حق کا علم ہے، مگر وہ فیصلے میں ظلم کرتا ہے، تو وہ جہنم میں ہوگا اور جو شخص بغیر علم کے لوگوں کے فیصلے کرے، وہ بھی جہنم میں ہوگا‘‘۔ (سنن ابودائود) پس جب ووٹرز کے پاس منصبِ قضا آئے اور وہ عدل پر مبنی فیصلے نہ کریں، تو اُن کا یہ توقع رکھنا عبث ہوگا کہ جس امیدوار کے بارے میں انہوں نے فیصلہ کرتے وقت اپنے آپ پر اور پوری قوم پر ظلم کیا ہے، وہ عدل کا علمبردار ہوگا، یہ ببول کا درخت لگا کر گلاب کے پھولوں یا انگور کے خوشوںکی تمنا کرنے کے مترادف ہے۔