!پاکستان اور ایران گولی سے گریز کریں

628

ایران کی جانب سے کی گئی پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی کے جواب میں جمعرات کو علی الصبح پاکستان نے ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں کارروائی کر کے دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو مؤثر انداز میں نشانہ بنایا جس میں متعدد دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق 18 جنوری 2024ء کی صبح انٹیلی جنس پر مبنی ’’مرگ برسرمچار آپریشن‘‘ کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا اور ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جو پاکستان میں حالیہ حملوں کے ذمہ دار تھے۔ حملے میں ڈرونز راکٹوں، بارودی سرنگوں اور اسٹینڈ آف ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا، کولیٹرل نقصان سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ احتیاط برتی گئی۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ نامی دہشگرد تنظیموں کے زیر استعمال ٹھکانوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔ نشانہ بنائے گئے ٹھکانے بدنام زمانہ دہشت گرد دوستا عرف چیئرمین، بجر عرف سوغت، ساحل عرف شفق، اصغر عرف بشام اور وزیر عرف وزی کے زیر استعمال تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردی کی کارروائیوں کے خلاف پاکستانی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں، پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام اور کسی بھی مہم جوئی کے خلاف تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہمارا عزم غیر متزلزل ہے۔ ہم پاکستانی عوام کی حمایت سے پاکستان کے تمام دشمنوں کو شکست دینے کے لیے پر عزم ہیں۔ دونوں ہمسایہ برادر ممالک کے درمیان دو طرفہ مسائل کے حل میں بات چیت اور توازن کو سمجھداری سمجھا جاتا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جوابی کارروائی میں کسی شہری یا ایرانی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا۔ پاکستان نے ایران میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی موجودگی اور سرگرمیوں کے ٹھوس شواہد کے متعدد ڈوزیئرز ایرانی حکومت کے ساتھ شیئر کئے لیکن ہمارے سنجیدہ تحفظات پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے نام نہاد سرمچار بے گناہ پاکستانیوں کو خون بہاتے رہے۔ جمعرات کی صبح دہشت گردوں کے خلاف کارروائی مصدقہ انٹیلی جنس کی روشنی میں کی گئی۔ یہ کارروائی تمام خطرات کے خلاف ہمارے اپنے قومی سلامتی کے تحفظ اور دفاع کے غیر متزلزل عزم کی عکاس اور انتہائی پیچیدہ آپریشن مرگ برسرمچار پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان اپنے عوام کے تحفظ اور سلامتی کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتا رہے گا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق کارروائی ایران کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف تھی، پاکستان اپنے پڑوسی ملک ایران کے ساتھ پر امن تعلقات کا خواہاں ہے، ایران کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا مکمل احترام کرتا ہے، آج کے عمل کا واحد مقصد پاکستان کی اپنی سلامتی اور قومی مفاد کے لیے تھا جو ہمارے لیے سب سے مقدم ہے اور جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان بین الاقوامی برادری کے ذمہ دار رکن کے طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی پابندی کرتا ہے جس میں رکن ممالک کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری شامل ہے۔ پاکستان ان اصولوں کی رہنمائی میں کبھی اپنی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو کسی بھی بہانے و حالات میں چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ ایران برادر ملک ہے اور پاکستانی عوام ایرانی عوام کے لیے ہمت عزت اور محبت رکھتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ دہشت گردی کی لعنت سمیت مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بات چیت اور تعاون پر زور دیا ہے۔ ہم مسائل کا مشترکہ حل تلاش کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔ کسی بھی تیسرے فریق کی ثالثی کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ انہیں ایسی کسی پیش کش رفت کا علم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایرانی عوام کو دوست اور بھائی سمجھتا ہے اور صورتحال کو مزید بگاڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا، امید ہے کہ دوسرا فریق بھی اس بات کا ادراک کرے گا۔ انہوں نے مند پشین بارڈر مارکیٹ اور پولان گبد ٹرانسمیشن لائن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایران کے ساتھ تجارت اور توانائی جیسے متعدد موضوعات پر رابطے میں رہا ہے لیکن دو دن پہلے جو ہوا وہ حیران کن تھا۔ دریں اثناء ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبہ سیستان کے سرحدی علاقے میں ہونے والے پاکستانی حملوں میں کم از کم تین خواتین اور چار بچوں سمیت 9 افراد مارے گئے۔ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے صوبہ سیستان بلوچستان کے نائب صوبائی گورنر علی رضا مزحمتی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیستان صوبہ کے شہر سروان کے قریب صبح 4 بج کر 5 منٹ پر دھماکوں کی آواز سنی گئی، مرنے والے تمام افراد غیر ایرانی شہری تھے۔عالمی برادری نے بجا طور پر پاکستان اور ایران کے مابین تازہ کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے سوائے امریکہ کے جس نے جلتی پر تیل چھڑکنے کی کوشش کی ہے، روس نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین مزید کشیدگی خطے کے امن و استحکام میں دلچسپی نہ رکھنے والوں کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کے مترادف ہو گی، افغانستان نے فریقین کو باہمی اختلافات سفارتی ذرائع سے بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ دیا ہے، یورپی یونین نے پاکستان اور ایران کے ایک دوسرے پر حملوں پر انتہائی تشویش ظاہر کرتے ہوئے آئندہ ان سے گریز کرنے پر زور دیا ہے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل التونیو گرتریس نے دونوں ممالک کے درمیان سلامتی کے خدشات کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی درخواست کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تحمل سے کام لینے کے لیے کہا ہے اس ضمن میں سب سے مثبت طرز عمل دوست ہمسایہ ممالک چین اور ترکی کی طرف سے سامنے آیا ہے، چین نے پیشکش کی ہے کہ وہ پاکستان اور ایران کے اختلافات دور کرانے کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے جب کہ ترکیہ بھی دو برادر اسلامی ہمسایہ ممالک کے مابین مسائل کے پر امن حل کے لیے متحرک ہو گیا ہے اور ترک وزیر خارجہ حاقان فیدان نے پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ سے بات چیت کی ہے اور بتایا ہے کہ پاکستان اور ایران دونوں ہی کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتے، ترکیہ کی تجویز ہے کہ دونوں ملک خطے میں امن بحال کریں اور ایک دوسرے کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کی بنیاد پر مسائل حل کریں… یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان اور ایران دونوں جانب یہ احساس شدت سے پایا جاتا ہے کہ موجودہ تلخ اور تکلیف دہ صورت حال دونوں ممالک میں سے کسی بھی ملک کے عوام کے مفاد میں نہیں اس لیے اس کا جلد از جلد خاتمہ ہونا چاہئے اور اگرچہ پاکستان نے ایران سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے اور ایرانی سفیر جو پہلے سے اپنے وطن گئے ہوئے تھے انہیں پاکستان آنے سے روک دیا گیا ہے تاہم اطمینان کا پہلو یہ بھی ہے کہ دونوں جانب سے ایک دوسرے کی سرحدوں کے اندر کارروائیوں کے باوجود دو طرفہ تجارت جاری ہے اور جمعرات کے روز تفتان کی سرحد کے ذریعے سو سے زائد ٹرکوں کی آمدورفت ہوئی جن کے ذریعے پاکستان سے چاول، آلو اور دیگر اشیا ایران بھیجی گئیں جب کہ ایران سے ایل پی جی، پٹرولیم مصنوعات اور بعض دوسری اشیاء پاکستان آئیں اسی طرح پنجگور کی جانب چیدگی کی سرحد پر بھی دو طرفہ تجارتی سرگرمیاں بحال ہیں۔ یہ صورت حال اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ فریقین میں جنگی کیفیت کے خاتمہ کے امکانات روشن ہیں…!