افغان اور پاکستان دور کیوں؟

603

پاکستان اور افغانستان دونوں جنوبی ایشیا کے اہم پڑوسی ہیں، دونوں اسلامی جمہوریہ ہیں، دونوں جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں، اس لحاظ سے دونوں میں قریبی برادرانہ تعلقات ہونے چاہیے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اس کی وجوہات پر غور کیا جائے تو یہ سلسلہ دور تک جاتا ہے، یعنی پاکستان کے قیام سے شروع ہوتا ہے۔ جب افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کا دست راست سردار نجیب اللہ شاہ کا ایلچی بن کر کراچی آیا اور قائداعظم کے سامنے رعونت کے ساتھ اپنے مطالبات رکھے یہ مطالبے فاٹا پر قبضے، کراچی کی بندرگاہ پر کنٹرول اور چمن سے گوادر تک کے سمندر تک افغان رسائی کے تھے، ان مطالبات کو قائداعظم نے صبر سے سنا اور نرم لہجے میں دوٹوک جواب دیا کہ ان میں سے کوئی بھی قابل عمل نہیں ہے۔ اس کے بعد 1948ء میں پاکستان کو یو این او کا رکن بنانے کی قرارداد پیش کی گئی تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے مخالفت کی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا۔ 1973ء میں صدر افغانستان محمد دائود خان نے صدر بنتے ہی اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ ’’دنیا جان لے کہ افغانستان کا دنیا میں کسی کے ساتھ کوئی تنازع نہیں سوائے پاکستان کے اور افغانستان اس تنازعے کے حل کی ہر ممکن کوششیں جاری رکھے گا‘‘۔ تعلقات میں خرابی کے یہ سارے معاملات روس کی آشیرواد سے جاری تھے۔ اسی دوران اے این پی کے قوم پرست لیڈر باچا خان، ولی خان اور اجمل خٹک، افراسیاب خٹک نے افغانستان کے ایما پر آزاد پشتون تحریک شروع کی، بعد میں بھارت کے ساتھ مل کر آزاد بلوچستان اور بلوچ علٰیحدگی پسندوں کی عسکری تربیت کی اسی دوران 1978ء روس کی پروردہ افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی ’’پیپلز کمیونسٹ پارٹی‘‘ نے کابل میں بغاوت برپا کی جس کو ’’انقلاب ثور‘‘ کا نام دیا گیا جس کے نتیجے میں صدر دائود کو ہلاک کرکے کمیونسٹ نجیب صدر بن گیا۔ اس دوران 1979ء میں جب افغان عوام نجیب کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف اٹھے تو نجیب نے ہزاروں افغانوں کو قتل کیا لیکن بغاوت پر قابو نہ پاسکا، اپنی حکومت کو خطرے میں دیکھ کر صدر نجیب نے روس کو افغانستان پر حملے کی دعوت دی۔ 24 دسمبر 1979ء کو روس نے افغانستان پر حملہ کیا، روسی فوج نے افغانستان میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا، پاکستان نے اس موقع پر تیس لاکھ سے زیادہ افغانوں کو پناہ اور تحفظ دیا اور روس کے خلاف برسرپیکار مجاہدین کی مکمل مدد کی۔ افغان مجاہدین نے روس سے نو سال جنگ لڑی۔ دسمبر 1979ء سے فروری 1989ء تک یہ جنگ جاری رہی۔ لیکن روس کو شکست دینے کے بعد مجاہدین آپس میں متحدہ نہ رہ پائے اور افغانستان میں خانہ جنگی برپا ہوگئی۔ آخر کار پانچ سال بعد 1994ء میں تحریک اسلامی طالبان کے نام سے چند طلبہ کے گروہ نے ملا محمد عمر کی قیادت میں افغانستان کا مکمل کنٹرول حاصل کرلیا اور امارت اسلامیہ افغانستان کے نام سے حکومت قائم کی۔

2001ء میں نائن الیون کو بنیاد بنا کر امریکا نے افغانستان پر حملہ کردیا، یوں امریکا کی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا پہلا نشانہ افغانستان اور دوسرا عراق بنا، پرویز مشرف امریکی دبائو برداشت نہ کرسکے اور امریکا کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ یہ ایک غلط فیصلہ تھا جس کے نتائج پاکستان آج بھی بھگت رہا ہے۔ امریکا بیس سال افغانستان میں قتل و غارت کے بعد وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوا، افغانستان میں امریکی کمانڈر نے 12 جولائی 2021ء میں اپنا چارج چھوڑ دیا، یہ صدر بائیڈن کا دور تھا۔ صدر بائیڈن نے 20 سال تک افغانستان میں جنگ مسلط رکھی لیکن نکلتے ہوئے اس جنگ کو ’’ناقابل فتح‘‘ قرار دیا اور لاکھوں بے گناہ افغانوں کی ہلاکت پر ایک لفظ بھی نہ کہا اور انتہائی ’’کاروباری انداز‘‘ میں کہا کہ وہ افغان قوم کی تعمیر کے لیے نہیں گئے تھے۔ امریکا کی افغانستان سے واپسی پراسرار انداز میں ہوئی، امریکیوں نے بلگرام ائربیس سے رات کے اندھیرے میں فوج کو نکالا، چند سو فوجی جو رہ گئے تھے وہ 15 اگست کو امریکا سفارت خانے کے کمپائونڈ کی چھت سے ہیلی کاپٹروں میں فرار ہوئے، ان کے فرار کی تصاویر نے دنیا کو ویت نام کی جنگ میں ناکامی کے بعد کے امریکی فرار کو یاد دلا دیا۔ موجودہ صدر جوبائیڈن ویت نام کی امریکا واپسی کے وقت ان سینیٹرز میں شامل تھے جن کو ویت نام بحران سے متعلق خفیہ اجلاس میں وائٹ ہائوس طلب کیا گیا تھا۔ وہ اس وقت 32 سال کے تھے۔ امریکا نے جس طرح 2001ء میں طالبان کو اقتدار سے الگ کیا تھا طالبان نے بھی بیس سال بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں کو کابل سے بے دخل کیا۔ آج افغانستان میں امریکی بے دخلی کے باوجود افغانستان سے پاکستان کے تعلقات بہتر نہیں کیے جاسکتے، اس کی وجہ تحریک پاکستان طالبان یعنی ٹی ٹی پی کے حملے ہیں، پاکستان اس سلسلے میں افغان حکومت پر انہیں تحفظ فراہم کرنے کا الزام لگاتا ہے لیکن افغان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ گزشتہ دنوں افغان سینئر رہنما ملا شیریں اخوند اسلام آباد آئے اور افغان وفد کے ساتھ نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ملاقات کی، وہ ان ملاقاتوں کو نتیجہ خیز قرار دے رہے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان اہم پڑوسی بھی ہیں اور اسلامی جمہوریہ بھی، لہٰذا ان دونوں میں بہتر برادرانہ تعلق ہونے چاہئیں جو دونوں اطراف کے لوگوں کے لیے بہتر ہیں۔