بولتے کیوں نہیں

905

الیکشن کا موسم آتے ہی ساری پارٹیاں سوتے سے اُٹھ کر مشاورت کا سلسلہ شروع کردیتی ہیں۔ مشاورت کا اہم نکتہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوتا ہے۔ یعنی کس کو کہاں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ لنگڑیال کو ساہیوال، گل اصغر کو خوشاب۔ سب سے زیادہ ایڈجسٹمنٹ (ن) لیگ کو کرنی ہے۔ کبھی وہ آئی پی پی (استحکام پاکستان پارٹی) سے معاملات طے کرتے ہیں کبھی کراچی کا رُخ کرکے ایم کیو ایم کی طرف دیکھتے ہیں بلکہ دیکھتے کیا ہیں ایسے سارے سیاسی بازی گروں اور چار درویشوں کے ساتھ ایم کیو ایم کے ساتھ بیٹھک لگاتے ہیں۔ سارے مذاکرات کے بعد آج تک ایک سیٹ 242 کا فیصلہ نہیں طے پایا، ایم کیو ایم نے سیاسی گرد اڑانے والے لوگوں کو بتایا ہے کہ اس سلسلے میں چلنے والی ساری خبریں غیر مصدقہ ہیں۔ ویسے غیر مصدقہ کو مصدقہ بنتے دیر نہیں لگتی۔ کراچی کے لوگوں کو ان کی مذاکرات مذاکرات کھیلنے کی صلاحیت کا خوب علم ہے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ کراچی میں بھتا خوری کا ایک سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔ پچھلے ماہ صرف دسمبر کے مہینے میں تین تاجروں کو بھتے کی عدم ادائیگی پر قتل کیا گیا۔ کیا پتا یہ سلسلہ الیکشن کے اخراجات کے باعث شروع ہوا ہو۔ طریقہ واردات وہی ہے پرانے طرز کا کہ بھتے کے خلاف جو شکایات درج کرائی گئیں ان میں یہ بات بھی بتائی گئی کہ چھوٹی بڑی مارکیٹوں میں بھتے کی پرچی کے ساتھ ایک گولی بھی بھیجی گئی ساتھ عدم ادائیگی کی صورت میں ان کے اہل خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ کراچی میں لاقانونیت کا راج ہے، اور عوام لٹیروں کے رحم و کرم پر ہیں۔
کراچی کو کیوں نظرانداز کرنے کی پالیسی عشروں سے جاری ہے حالاں کہ کراچی میں ایسا کچھ ٹیلنٹ ہے کہ وہ سب کچھ بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کے ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، یہ پاکستان کا ایک قیمتی اثاثہ ہے، ایک ایسا اثاثہ جس کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو منظر بدل سکتا ہے اور بدل رہا ہے، کون بدل رہا ہے اور کیسے بدل رہا ہے؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے آپ کو کراچی کی سیاست کو دیکھنا ہوگا۔ یہی کراچی تھا جہاں کچھ نوجوان لنگڑے، لولے اور کانے کا خطاب حاصل کرتے تھے اور بوریوں کو بند کرنے اور بھرنے کی فکر کرتے تھے۔ نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد بوری میں بھری گئی اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئی کچھ ان ہی بوریوں کے خوف سے شہر کو چھوڑ کر کہیں انڈر گرائونڈ ہونے کی فکر کرتے وہ دور گزرا۔ اب گزرا ہوا دور دوبارہ لانے کے لیے مذاکرات مذاکرات کا کھیل جاری ہے۔ لیکن اب نوجوانوں نے سوچ سمجھ کر اپنا راستہ بدلا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کراچی کے ایسے رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں جو ہر ایک کی دل کی آواز بن گئے ہیں۔ انہوں نے اقتدار کے بغیر شہر کے مسائل حل کیے، کراچی کی تباہ کن بارشیں ہوں جہاں عوام گھروں میں محصور ہوگئے تھے، گلیوں گلیوں سڑکوں محلوں میں پانی ٹھاٹھیں مار رہا تھا تو یہ حافظ نعیم تھے جو الخدمت کے ساتھیوں کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے موجود تھے۔ بارش میں بھیگتے سڑکوں پر کھڑے تھے۔ گٹر کے مسائل ہوں یا لوگوں کی بحریہ میں پھنسی رقم کا سلسلہ جماعت اسلامی کے لوگ ریلیف کے لیے حاضر تھے۔ ملک میں سیلاب آیا تو یہی جماعت اسلامی کے کارکن الخدمت کے روپ میں اپنی جانوں پر کھیل کر لوگوں کو بچانے میں مصروف تھے۔ حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی کے تحت بنو قابل پروگرام شروع کیا۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لیے آئی ٹی کی مہارت اور تربیت کے مواقعے فراہم کیے، اب شہر میں بیسوں کیمپ موجود ہیں جہاں آئی ٹی کی تعلیم دی جارہی ہے، بنوقابل پروگرام سے نوجوانوں کو حوصلہ ملا ہے ان میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا جذبہ بیدار ہوا ہے۔ چند ماہ پہلے اگست میں کراچی ایکسپو سینٹر میں ٹیکنوفیکٹ کا انعقاد کیا گیا جہاں مختلف جامعات نے پچاس سے زیادہ اسٹالز لگائے اور اپنی ایجادات کی نمائش کی۔ اس کا افتتاح بھی حافظ نعیم الرحمن نے کیا تھا۔ جماعت اسلامی کے رہنما جس ویژن کے ساتھ میدان میں ہیں دور دور تک مدمقابل کوئی نہیں۔ جو موجود ہیں وہ خاندانی سیاست کے خمیر سے وجود میں آئے ہیں اور آج اسی سیاست کے تحت جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ غزہ پر مظالم کے لیے ان کے منہ بند ہیں کہ مغربی آقائوں سے آشیرباد کی امید انہیں منہ بند رکھنے پر مجبور رکھتی ہے۔ غزہ میں ننھے بچوں کے قتل عام پر ان کے منہ سے مذمت کے الفاظ تک نہیں نکلتے کہ انہیں بس اپنے اقتدار کی فکر ہے ان سے پوچھنا لازم ہے کہ
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا