جو مرضی کرلیں، ہم آخری بال تک لڑیں گے، عمران خان

292
the law of the jungle

راولپنڈی: بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے یہ جو مرضی کرلیں، ہم آخری بال تک لڑیں گے۔ بلے کا انتخابی نشان اس لیے واپس لیا گیا تاکہ ہماری پارٹی توڑی جا سکے اور انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں۔

اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ کیس کی سماعت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود ٹکٹوں کے معاملے پر مشاورت نہیں کرنے دی گئی، مجھے معلوم ٹکٹ کسے ملے اور کسے نہیں ملے۔انتخابی نشان بلے کا کیس سپریم کورٹ میں ہے، دیکھتے ہیں سپریم کورٹ کیا اسٹینڈ لے گی۔

عمران خان نے کہا کہ ہمارا ایک واضح اصول ہے کہ جس نے تحریک انصاف کے خلاف پریس کانفرنس کی اسے ٹکٹ نہیں دیں گے۔ ڈیڑھ سال پہلے کہا تھا کہ مذاکرات کریں لیکن اب کس سے مذاکرات کیے جائیں اور کیوں کیے جائیں؟ مذاکرات صرف ایک بات پر ہو سکتے ہیں کہ ملک میں شفاف لیکشن ہوں۔سپریم کورٹ کے 2 ججز کے استعفا دینے پر تشویش ہے۔

بانی چئیرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہم سے بلے کا نشان اس لیے واپس لیا گیا تاکہ ہماری پارٹی توڑی جاسکے اور الیکشن نہ لڑ سکیں، جو مرضی یہ کرلیں ہم آخری بال تک لڑیں گے۔صحافی نے سوال کیا کہ آپ بار بار جنرل باجوہ کا نام لیتے ہیں کیا فیض حمید کو بھی اپنا ملزم سمجھتے ہیں، جس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ فوج سیاسی جماعت نہیں، آرڈر اوپر سے آتا ہے، ایک آدمی فیصلہ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف سے اچھی طرح واقف ہوں، وہ 2 امپائرز کے بغیر میچ نہیں کھیلتا، نواز شریف لندن پلان کے تحت گارنٹی لے کر پاکستان آیا ہے، ہماری انڈر 16 کو بھی نہیں کھیلنے دیا جا رہا، ہماری انتخابی مہم کا نعرہ غلامی نا منظور ہوگا، ملک میں قانون و انصاف کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، مریم نواز، شہباز شریف اور آصف زرداری کے کیسز کو کوئی نہیں پوچھتا، میرے ساتھ یہ سب کرکے مثال قائم کی جا رہی ہے۔

دریں اثنا پی ٹی آئی کے بانی چئیرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کی اوپن کورٹ سماعت اڈیالہ جیل میں ہوئی جہاں مزید چار گواہوں کا بیانات قلم بند کرلیے گئے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ کیس کی اوپن سماعت کی، عدالت میں نیب پراسیکیوٹرز، وکلا صفائی، بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی اور 11 صحافیوں اور پی ٹی ئی کے 25 کارکنوں کو رسائی دی گئی۔ عدالت نے مزید 4گواہان کے بیانات قلم بند کیے اور سماعت پیر(15 جنوری) تک ملتوی کر دی۔