بحیرہ اسود اور بحیرہ مرمرہ کو ملانے والی آبنائے باسفورس ترکیہ کے اقتصادی دارالحکومت اور عروس البلاد استنبول کو دو براعظموں یعنی ایشیا اور یورپ میں بانٹتی ہے۔ باسفورس کی ایک شاخ شہر کے کافی اندر تک جاکر ایک بند گلی میں ختم ہوجاتی ہے۔ پانی کی اس چینل کو شاخ زریں کہا جاتا ہے، جو شہر کے یورپ والے حصے کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اس شاخ زریں کے کنارے ایک رنگارنگ محلہ بلات واقع ہے، جہاں ایک ہی گلی میں مسجد، چرچ اور یہودیوں کی عبادت گاہ سینا گاج یا کنیسہ واقع ہے۔ یروشلم کی طرح، یہ علاقہ متنوع تہذیبوں کا مرکز ہے، جہاں صدیوں سے عیسائی، یہودی اور مسلمان مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ مقامی بلدیہ نے بلات کی گلیوں کو رنگوں سے رنگ دیا ہے، تاکہ اس کی تکثیریت کی عکاسی ہو سکے۔ ایک عرصہ قبل ایک یہودی عالم نے مجھے کہا تھا کہ اگر یہودی اس وقت بطور مذہبی یا قومی شناخت زندہ ہیں، اس کا سارا کریڈٹ ایرانیوں اور مسلمانوں کو جاتا ہے ورنہ قدیم زمانہ میں بابل کے باسیوں نے اور عہد وسطیٰ میں رومیوں نے اور پھر بیسیویں صدی میں جنگ عظیم دوم تک یورپ نے ان کو برباد اور ختم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ترکیہ میں مقیم ایک یہودی اسکالر کارین گیرسان سارحون کا کہنا ہے کہ 1492 میں جب اسپین کے بادشاہ فرڈینینڈ دوم اور ملکہ ازابیلا اوّل کے جاری کردہ الحمرا فرمان کے بعد یہودیوں کو ملک بدر کر دیا گیا تو سلطنت عثمانیہ نے فراخدلی کے ساتھ ان کو آباد کرنے میں ہاتھ بٹایا۔ ترکیہ کے آرکائیوز کے مطابق سلطان بایزید ثانی نے نہ صرف اسپین کے اقدامات کی مذمت کی بلکہ یہودیوں کو سلطنت عثمانیہ تک بحفاظت پہنچانے کے لیے بحری جہاز بھی بھیجے۔ ان مخطوطات میں ان یہودیوں کے نام اور ایڈریس موجود ہیں، جن کو پناہ دی گئی۔ ان یہودی تارکین وطن میں فرانس سے ہجرت کرنے والا ربی یتزاک سرفاتی بھی شامل تھا، جو جرمن نژاد یہودی تھا۔ اس نے یورپ میں مقیم یہودیوں کو دعوت دی کہ وہ سلطنت عثمانیہ میں آباد ہو جائیں۔ اس نے اپنے ہم مذہبوں سے پوچھا کہ کیا تمہارے لیے عیسائیوں کے بدلے مسلمانوں کے ساتھ رہنا بہتر نہیں ہے؟ سلطان محمود دوم، جس کو فاتح استنبول کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ،کے دور میں ایک یہودی حکیم یعقوب پاشا سلطنت عثمانیہ کا وزیرخزانہ تھا۔ دیگر یہودیوں میں، موسیٰ ہامون اور اسحاق پاشا سلطان کے خصوصی طبیب تھے اور ابراہم ڈی کاسترو، ٹکسال کے انچارج تھے۔ معروف اسکالر ڈاکٹر ظفر اسلام خان، جنہوں نے حال ہی میں گیارہ سال کی محنت کے بعد قرآن کی انگریزی میں تفسیر مکمل کرکے شائع کی ہے، کا کہنا ہے کہ 20ویں صدی کے اوائل میں صہیونیت کے ظہور سے قبل تک یہودیوں کی تاریخ مسلمانوں کی تعریفوں کے پل باندھتی تھی۔ ان کے مطابق 20 ویں صدی کے اوائل اور پھر خاص طور پر 1948کے بعد انہوں نے اپنی تاریخ کو توڑ مروڑ کے پیش کرنا شروع کر دیا۔ اسرائیل فلسطین تنازعے سے قبل یہودیوں کی تاریخی کتابیں مسلم حکمرانوں کی سخاوت اور ان کے جذبہ رحم کے واقعات سے بھری پڑی تھیں۔ مسلم حکمرانوں نے وقتاً فوقتاً انہیں مغرب کے وحشی پن سے نجات دلائی۔ یہودی صحیفوں کے مشہور اسکالر ربی موسیٰ بن میمون، جسے عام طور پر میمونائڈز کے نام سے جانا جاتا ہے، نے ایوبی خاندان کے بانی صلاح الدین یوسف ابن ایوبی کے ذاتی معالج کے طور پر خدمات انجام دیں۔ صلاح الدین نے 1187ء میں صلیبیوں کو شکست دے کر یروشلم شہر کو کامیابی سے فتح کیا۔ اس یہودی اسکالر نے آزادی کے ساتھ کتابیں لکھی۔ ڈاکٹر خان صاحب نے بتایا کہ دی یونیورسل جیوش انسائیکلو پیڈیا، جو نیویارک میں 1908 میں شائع ہوئی تھی اور دیگر تصانیف میں یہودیوں نے یورپ میں عیسائی حکمرانوں کی طرف سے روا رکھے جانے والے سلوک کا ذکر کرکے، مسلم حکمرانوں کے کردار کی تعریف کرکے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ان کو نہ صرف حفاظت فراہم کی، بلکہ ان کی پرورش بھی کی۔ یہودی عالم اور آئرلینڈ کے ربی ڈیوڈ روزن سے میں نے پوچھا کہ آخرکیا وجہ ہے کہ ایک یہودی ملک اسرائیل مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے؟، تو ان کا کہنا تھا کہ اگر مسئلہ فلسطین حل ہوتا ہے اور فلسطینیوں کے وقار کو تسلیم کیا جاتا ہے تو اسلام اور یہودیت کے درمیان تعلقات بحال ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مسیحیت کے برعکس، اسلام نے یہودیوں کے وجود کو کبھی بھی غیر قانونی قرار نہیں دیا۔ عیسائیت کے لیے، یہودی خدا کے دشمن اور ابلیس کے ساتھی تھے، کیونکہ انہوں نے سیدنا عیسیٰؑ کو نشانہ بنایا تھا۔ لہٰذا عیسائی حکمران یہودیوں کا نام و نشان مٹانا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ تینوں بڑے مذاہب، یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی بنیاد توحید پر قائم ہیں اور بت پرستی کے مخالف ہیں۔ تینوں سیدنا ابراہیمؑ سے نسبت رکھتے ہیں۔ چونکہ اسماعیلؑ اور اسحاقؑ دونوں ابراہیمؑ کے بیٹے ہیں، جنہوں نے سیدنا نوحؑ کے بیٹے سام سے نسب حاصل کیا، اس لیے سامی Sematic اصطلاح کا اطلاق یہودیوں اور عربوں دونوں پر ہوتا ہے۔ مگر بد دیانتی کی انتہا ہے کہ اس کو صرف یہودیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 957 قبل مسیح کے آس پاس، سیدنا سلیمانؑ نے یروشلم میں پہلا ہیکل تعمیر کیا۔ اس شاندار ڈھانچے کی تعمیر میں مافوق الفطرت مخلوق، جنوں نے بھی مدد کی۔ غالباً چار صدیوں کے بعد جب بابل کو دوبارہ عروج حاصل ہوا، توبخت نصر یا نبوکد نذر نے 586 قبل مسیح میں یروشلم کی طرف مارچ کیا۔ شہر اور ہیکل کو تباہ و برباد کرکے ہزاروں یہودیوں کا قتل عام کیا، جو بچ گئے انہیں غلام بنا کر لے جایا گیا۔ کئی سال کے بعد جب بابل کی سلطنت کو زوال آگیا اور ایران کو سائرس اعظم کے دور میں قوت حاصل ہوئی تو انہوں نے بابل پر حملہ کرکے یہودیوں کو آزاد کرایا۔ چھے صدی بعد خلیفہ ثانی سیدنا عمرؓ کے دور میں عرب فوجوں نے یروشلم کا محاصرہ کیا۔ چھے ماہ کے بعد پیٹریارک سوفرونیئس نے اس شرط کے تحت ہتھیار ڈال دیے کہ وہ صرف خلیفہ کے سامنے سرتسلیم خم کرے۔ خلیفہ عمرؓ نے یروشلم کا سفر کیا۔ جہاں انہوں نے اس جگہ کے بارے میں دریافت کیا۔ کیونکہ پیغمبر اسلام سیدنا محمدؐ نے جب معراج کے واقعات بتائے تھے، تو ان جگہوں کے بارے میں صحابہ کو تفصیل کے ساتھ بتایا تھا۔ سوفرونئیس جب سیدنا عمرؓ کو اس مقام پر لے گیا، تو یہ کھنڈرات تھے۔ رومیوں نے یہودیوں کی ہر علامت کو مٹا دیا تھا اور شہر کا کچرا اس جگہ پر پھینکتے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے اس جگہ کو صاف کرکے نماز ادا کرنے کے بعد لکڑی کی ایک مسجد تعمیر کی، جو مسجد الاقصیٰ ہے، بعد میں امیہ دور میں اس میں توسیع کی گئی اور موجودہ شکل میں موجود ہے۔ ستم ظریفی ہی ہے کہ یہ قوم جو یورپ اور مسیحیوں کے ظلم و ستم کا شکار رہی ہو، اس وقت مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے، جنہوں نے آڑے اوقات میں ان کو آفات سے محفوظ رکھا۔ ورنہ بخت نصر نے زمین کو ان سے پاک کرنے کے پورے سامان فراہم کر دیے تھے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)