امت مسلمہ آج جس انتشارکا شکر نظر آتی ہے۔ قوت عمل، قوت ایجافد، مہم جوئی، ذہنی، جسمانی، فنی، تنظیمی، توانائی اور مہارتوں کے فقدان کی تصویر دکھائی دیتی ہے اسے ایک طرف رکھتے ہوئے جب ہم تصویر کے دوسرے رخ پر نظر ڈالتے ہیں تو صورتحال نہ صرف اتنی مایوس کن نہیں ہے بلکہ بہت مختلف ہے۔
٭ اس پہلو سے اگر دیکھا جائے تو جس شدت اور تسلسل کے ساتھ اُمت مسلمہ کے دشمن اس پرچاروں طرف سے حملہ آور ہیں وہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اُمت مسلمہ نہ مُردہ ہے، نہ ایک غیرمحسوس وجود ہے بلکہ ان جابر اور ظالم قوتوں کے لیے ایک لپکتا ہوا شعلہ ہے جس کی تپش اور حرارت نے ان کا سکون برباد کررکھا ہے۔ جس نے اپنی تمام تر کمزوریوں اور ناطاقتی کے باوجود تین مہینے سے ان کے لاڈلے یہودی وجود کو ہلا کر رکھا ہوا ہے جو اپنی ظلم وجور کی بے محابا طاقت استعمال کرنے کے باوجود ان کے حوصلے پست کرنے میں ناکام ہے۔
٭ گزشتہ 75برسوں سے فلسطین اور کشمیر کے مظلوموں کے جسم سے مسلسل خون بہہ رہا ہے، وہ زخموں سے چور ہیں، گر رہے ہیں اور بار بار گررہے ہیں، مسلسل گررہے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر پھر کفر کی طاقتوں کے مقابل، تمام خطرات سر پر اٹھائے، کھڑے ہوجاتے ہیں، بار بار ہی نہیں ہربار کھڑے ہوجاتے ہیں۔ شکست تسلیم کرنے پر تیار ہیں اور نہ باطل قوتوں سے دبنے پر۔ مسلم دنیا کی یہ عزیمت اور ایمانی قوت وہ بے مثل منظرنامہ تخلیق کررہی ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے، آخری تجزیہ میں جو مسلم دنیا کی فتح پر اختتام ہوتا ہے۔
٭ مغربی اقوام نے 18ویں اور 19 ویں صدی میں صرف مسلم دنیا کو ہی اپنی کالونی نہیں بنایا تھا بلکہ غیر مسلم دنیا جیسے افریقا، لاطینی امریکا (جنوبی امریکا) اور ایشیا کے کئی ممالک کو بھی اپنی کالونیاں بنایا تھا لیکن یہ مسلم دنیا تھی جس نے پہلے دن سے مغربی اقوام کے قبضے اور غلامی کو قبول نہیں کیا۔ انڈونیشیا ہو یا برصغیر پاک وہند، لیبیا ہو یا سوڈان، الجزائر ہو یا تیونس یا افغانستان۔۔۔ ہر جگہ مسلمانوں نے مغربی اقوام کے خلاف سیاسی و عسکری جدوجہد کی اور انہیں نکال باہر کیا۔ مسلمانوں پر مغرب اور کفر کی طاقتوں کا قبضہ کوئی عام قبضہ نہیں تھا بلکہ بدترین مظالم ڈھائے جاتے تھے اتنے کہ انسان کی روح کانپ جائے۔
1945 میں فرانس نے صرف ایک ہفتے میں الجزائر میں 30 ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا۔ فرانس کا خیال تھا کہ اب الجزائر کے مسلمان کبھی کھڑے نہ ہوسکیں گے لیکن 17 سال بعد الجزائری مسلمانوں نے فرانس کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔
1943 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے ہندوستان میں جاپانی افواج کا راستہ روکنے کے لیے بنگال سے خوراک کے وسائل دوسری جگہوں پر منتقل کردیے جس کے نتیجے میں صرف بنگال میں 30 لاکھ مسلمان بھوک سے مر گئے۔ اندازہ لگائیں کے انگریز کے کم و بیش دو سو سال کی حکمرانی کے دوران کتنے مسلمان شہید ہوئے ہوں گے لیکن اس کے باوجود ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریز کی غلامی قبول نہیں کی۔ انہیں ہندوستان سے نکلنے پر مجبور بھی کیا اور پاکستان کی صورت ایک الگ اسلامی ملک بھی حاصل کر لیا۔
حالیہ تاریخ میں، اگر ہم 20ویں اور 21 ویں صدی میں آجائیں تو افغانستان میں روس اور پھر امریکا، عراق میں امریکا، فلسطین میں یہودی وجود، کشمیر میں ہندو ریاست، برما میں بدھسٹوں، مشرقی ترکستان میں چین، بوسنیا میں سربوں کے خلاف مسلمانوں نے جدوجہد کی۔ کچھ جگہوں پر کفار کو کامیابی سے نکال دیا جیسا کہ عراق و افغانستان اور کچھ جگہوں پر 70، 70 سال گزر جانے کے باوجود مسلمان کفار سے لڑ رہے ہیں، جیسا کہ فلسطین، کشمیر، مشرقی ترکستان، اور برما میں جہاں روہنگیا مسلمان بدھسٹوںکے قبضے کو قبول نہیں کررہے۔ تو کیا مسلم امت کی یہ خاصیت انہیں مردہ ظاہر کرتی ہے؟
٭ مغربی اقوام کو نکال باہر کرنا ہی مسلمانوں کا کارنامہ نہیں، یہ کارنامہ تو کئی دیگر اقوام نے بھی سرانجام دیا۔ مسلمانوں کو جو چیز دوسری اقوام سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ دوسری اقوام نے صرف جسمانی آزادی حاصل کی لیکن مغربی کے سیکولر سرمایہ دارانہ نظام کو دل و جان سے قبول کیا جبکہ مسلم دنیا میں حکمرانوں نے تو مغربی سیکولر نظام کو دل و جان سے قبول کیا لیکن امت نے کبھی اسے قبول نہیں کیا۔ اور اس کا اقرار خود مغربی اقوام اور ان کے ادارے کرتے ہیں۔
پی ای یو ریسرچ سینٹر کی 2013 کی تحقیقی کے مطابق: ملک میں شریعت کو قانون بنانے کی حمایت جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے اوسطاً 84فی صد۔ صحارا افریقا میں 64فی صد، مشرق وسطیٰ، شمالی افریقا کے خطے میں 74فی صد اور جنوب مشرقی ایشیاء میں 77فی صد مسلمان اسلامی شریعت کو سرکاری قانون کے طور پر نافذ کرنے کے حامی ہیں۔
پوری دنیا نے مغربی سیکولر افکار اور نظام کو قبول کرلیا یہاں تک کہ ان ممالک نے بھی جہاں 70 برس تک کمیونزم نافذ رہا، لیکن مسلمانوں نے مغربی سیکولر نظام کو بالکل قبول نہیں کیا۔۔۔ تو کیا مسلم امت کی یہ خاصیت انہیں مردہ ثابت کرتی ہے؟
٭ مسلم امت پر مغرب کے ایجنٹ حکمران مسلط ہیں، تعلیم اور میڈیا کے ذریعے مغربی افکار کی یلغار ہے۔ اس کے باوجود مسلم دنیا میں موجود امت کی عظیم اکثریت سیکولرازم، لیبرل تصورات نہ صرف قبول نہیں کرتی بلکہ انہیں مسترد کرتی ہے اور اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات سمجھتی ہے۔ اسی لیے تمام مسلم دنیا میں اسلام کے احیاء کی تحریکیں موجود ہیں اور انہیں امت میں زبردست پزیرائی بھی حاصل ہے۔ تو کیا مسلم امت کی یہ خاصیت انہیں مردہ ظاہر کرتی ہے؟
٭ اسٹین فورڈ سوشل انوویشن ریویو (Stanford Social Innovation Review) نے رپورٹ کیا کہ جب خیرات دینے کی بات آتی ہے، تو پاکستان ایک فراخدل ملک ہے جو اپنی جی ڈی پی کا ایک فی صد سے زیادہ صدقہ دیتا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان بہت زیادہ دولت مند ممالک جیسے برطانیہ (1.3 فی صد جی ڈی پی سے چیریٹی) اور کینیڈا (جی ڈی پی کا 1.2 فی صد چیریٹی) کی صف میں کھڑا ہے۔
پاکستان سینٹر فار فلانتھراپی کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ پاکستانی تقریباً 240 ارب روپے (2 بلین ڈالر سے زائد) سالانہ خیراتی اداروں کو دیتے ہیں۔
2017 میں ریسرچ پر مبنی ایڈوکیسی اور کنسلٹنسی گروپ Individualland کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی سالانہ تقریباً 554 ارب روپے عطیہ (110 روپے کا ڈالر تھا یعنی 5 ارب ڈالر) کرتے ہیں۔ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ ملک میں تقریباً 98 فی صد لوگ کسی نہ کسی شکل میںخیرات دیتے ہیں – اگر نقد نہیں، تو خیراتی عطیات کے ذریعے یا ضرورت مند کاموں کے لیے رضاکارانہ طور پر صرف پاکستان میں 22 ہزار مساجد ہیں اور 30 ہزار مدارس ہیں جن میں 25 لاکھ بچے پڑھتے ہیں اور یہ سب کے سب مسلمانوں کے چندوں سے چلتے ہیں۔ اب اندازہ لگائیں کے پوری مسلم دنیا میں لاکھوں مساجد اور مدارس ہیں جنہیں مسلمان ہی فنڈ کرتے ہیں۔ تو کیا مسلم امت کی یہ خاصیت انہیں مردہ ظاہر کرتی ہے؟ (جاری ہے)