آں اَمَنُّ النَّاس بر مولائے ما

586

اس کالم کا عنوان علامہ اقبال کی اس فارسی نظم کے ایک شعر کا پہلا مصرعہ ہے، اس نظم کے چند اشعار درج ذیل ہیں:

مَنْ شَبے صِدِّیق را دیدم بخواب
گل زِخاکِ راہِ اُو چیدم بخواب
آں اَمَنُّ النَّاس بر مولائے ما
آں کلیمے اوّلِ سینائے ما
ہمت اُو کِشتِ ملّت را چو ابر
ثانیِ اسلام و غار و بدر و قبر
گفتمش اے خاصّۂ خاصانِ عشق
عشقِ تو سِرِّے مَطلعِ دیوانِ عشق
پختہ از دستت اساسِ کارِ ما
چارہ فرمائے آزارِ ما

نوٹ: ’’اَمَنّ‘‘کے معنی ہیں: ’’بہت زیادہ احسان کرنے والا‘‘۔

مفہومی ترجمہ: ’’ایک رات میں نے خواب میں سیدنا ابوبکر صدیق کو دیکھا، آپ کی خاکِ راہ سے میں نے عالمِ خواب میں چند پھول چُنے۔ وہ صدیق جو ہمارے آقا ومولا سیدنا محمد رسول اللہؐ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے اور ہمارے ’’کوہِ سینا‘‘ کے پہلے کلیم اور ہمراز ہیں، (’’سینائے ما‘‘ سے مرادغارِ ثورلیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس موقع پر رسول اللہؐ کے ہمراز وکلیم صرف جنابِ صدیق اکبر تھے)۔ اُن کی عزیمت کشتِ ملّت کے لیے ابرِ رحمت کی طرح ہے، وہ اسلام قبول کرنے میں اور غارِ ثور، غزوۂ بدر اور روضۂ انور میں آپؐ کے ثانی ہیں۔ الغرض وہ نبوت کے تئیس سالہ دور میں اور بعد از وصال آپ کے رفیق ہیں۔ میں نے اُن سے عرض کی: اے عشقِ نبوت کے سرخیلوں کے تاجدار! کتابِ عشق کا عنوان اور اُس کا سربستہ راز آپ ہی تو ہیں۔ آپ ہی کے دستِ مبارک سے تاجدارِ نبوتؐ کے وصالِ مبارک کے بعد ’’خلافت علیٰ منہاجِ النُّبوّۃ‘‘ کی بنیاد پڑی، آج امت ایک بار پھر مصیبت میں مبتلا ہے، اس مشکل میں آپ ہماری چارہ گری فرمائیے‘‘۔

سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا جوجواب علامہ اقبال نے اپنی دانش کے مطابق اشعار میں رقم کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے:

’’حرص وہوس کو چھوڑو اور سورۂ اخلاص سے توحید کی آب وتاب کو حاصل کرو۔ یہ جو ہزاروں سینوں میں ایک ہی سانس رواں دواں ہے، یہ توحید کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اے اہلِ ایمان! توحید کے سانچے میں ڈھل کر سب اُسی کے رنگ میں ر
نگ جائو اور اُس کا عکس بن جائو۔ وہ ذات جس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، وہ تمہیں وحدتِ ملّت کی لڑی میں پروئے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے اور تو ترک وافغان کہلانا پسند کرتا ہے، یعنی تم نے قومیتوں، اوطان اور قبیلوں میں بٹ کر اپنی وحدت کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ ایک بار پھر توحید کو اپنی اساس اور پہچان بنا ئو اور قبائل یا اقوام میں منقسم ہوکر اپنی وحدت کو پارہ پارہ نہ کرو۔ اے مسلم! تونے اپنے آپ کو سو ملّتوں میں منقسم کر کے خود ہی اپنی وحدت پر شب خون مارا۔ سو ایک بار پھر اپنے گمشدہ عقیدۂ توحید میں ڈھل کر ایک ہوجائو، ایمان کی لذت عمل سے بڑھتی ہے اور بے عمل کا ایمان مردہ ہوجاتا ہے‘‘۔

علامہ اقبال نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی طرف منسوب کر کے وہی بات کہی، جو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بیان فرمائی ہے: ’’(تم اُن سے کہو:) ہم نے خود کو اللہ کے رنگ میں رنگ لیا ہے اور اللہ کے رنگ سے بہتر اور کس کا رنگ ہوگا اور ہم اُسی کی عبادت کرتے ہیں‘‘، (بقرہ: 138) اِسی مفہوم کو مولاناعبدالرحمن جامی نے اپنے شعر میں منظوم کیا ہے:

بندۂِ عشق شُدی، ترکِ نسب کُن جامی
کہ دریں راہ، فلاں ابن فلاں چیزے نیست

ترجمہ: ’’شِعارِ عشق میں ڈھل جائو اور نسب پر اِترانا چھوڑ دو، کیونکہ راہِ عشق میں نسب نہیں پوچھا جاتا، مقصد سے لگن اور ایثار کی اصل اہمیت ہوتی ہے‘‘۔ مولانا جامی کی عشق سے مراد یہ ہے کہ راہِ حق میں نفع ونقصان کو نہیں دیکھا جاتا، بلکہ مقصد اور نظریے سے غیر مشروط وابستگی اصل متاع ہوتی ہے، اسی مفہوم کو علامہ اقبال نے اپنے اردو شعر میں بیان کیا ہے:

عقل عیّار ہے، سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلّا نہ زاہد نہ حکیم

علامہ اقبال کے جس مصرعے کو ہم نے کالم کا عنوان بنایا ہے، وہ اس حدیثِ مبارک سے ماخوذ ہے: ’’ابوسعیدخُدری بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے فرمایا: تمام لوگوں میں سے اپنی رفاقت اور مال کے ذریعے مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابوبکر ہیں‘‘۔ (بخاری) ایک اور حدیث میں نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ہم پر جس کا بھی کوئی احسان ہے اُس کا صلہ ہم نے عطا کردیا، سوائے ابوبکر کے، کیونکہ اُن کے ہم پر اتنے احسانات ہیں جن کا صلہ اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن عطا فرمائے گا اور مجھے (یعنی دینِ اسلام کو ) کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں پہنچایا، جتنا کہ ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے‘‘۔ (سنن ترمذی) یہ آپ ہی کا امتیاز ہے کہ آپ نے اپنا سارا مال اللہ کی بارگاہ اور اُس کے رسولؐ کے قدموں میں دین کی سربلندی کے لیے نچھاور کردیا، احادیثِ مبارکہ میں ہے: ’’سیدنا عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے ہمیں مال صدقہ کرنے کا حکم دیا، (اِس موقع پر) میرے پاس کثیر مال موجود تھا، تو میں نے دل میں کہا: ’’اگر میں کبھی ابوبکر پر سبقت لے جاسکتا ہوں تو وہ آج ہی کا دن ہے، سیدنا عمر کہتے ہیں: میں (گھر) آیا اور آدھا مال لے کر نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، رسول اللہؐ نے پوچھا: گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟، میں نے کہا: بقیہ نصف مال گھر والوں کے لیے چھوڑا ہے۔ اتنے میں سیدنا ابوبکر اپنا سارامال لے کر حاضر ہوئے، آپؐ نے فرمایا: اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟، سیدنا ابوبکر نے عرض کیا: گھر والوں کے لیے اللہ اور اُس کے رسول کا نام باقی چھوڑا ہے۔ سیدنا عمر بیان کرتے ہیںکہ میں نے دل میں کہا: میں کبھی بھی سیدنا ابوبکر سے سبقت نہیں لے سکتا‘‘، (ترمذی) سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: ’’سیدنا ابوبکرؓ جب اسلام لائے تو اُس وقت اُن کے پاس گھر میں چالیس ہزار درہم موجود تھے، لیکن جب آپ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے تو اُس وقت آپ کے پاس صرف پانچ ہزار درہم رہ گئے تھے، آپ نے یہ ساری رقم غلاموں کو آزاد کرنے اور اسلام کی خدمت پر خرچ کردی‘‘۔ (تاریخ دمشق)

ان احادیثِ مبارکہ میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے اسلام اور نبی کریمؐ پر احسانات کا بیان ظاہری صورت کے اعتبار سے ہے اور نبی کریمؐ کا یہ شِعار تھا کہ آپ اپنے جانثاروں کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے، تاکہ دوسروں میں اُن کی تقلید اور پیروی کا جذبہ پیدا ہو، ورنہ حقیقتِ حال کے اعتبار سے ہر مسلمان نبی کریمؐ اور اسلام کا ممنون ہے، کیونکہ ایمان اور اسلام سے برتر کسی نعمت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اَعراب نے کہا: ہم ایمان لائے، آپ کہیے: (در حقیقت) تم ایمان نہیں لائے، ہاں یوں کہو: ہم نے اطاعت کی اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، اور اگر تم اللہ اور اُس کے

رسول کی اطاعت کرو گے، تو اللہ تمہارے (نیک) اعمال میں کوئی کمی نہیں کرے گا، بے شک اللہ بہت بخشنے والا، بے حد رحم فرمانے والا ہے۔ (درحقیقت) ایمان لانے والے تو صرف وہی ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے، پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، (دعوائے ایمان میں) وہی سچے ہیں۔ آپ کہیے: کیا تم اللہ کو اپنے دین کی خبر دے رہے ہو؟، حالانکہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے، اللہ اُسے جانتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ (اے رسولِ مکرّم!) یہ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے، آپ کہیے: مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ جتائو، بلکہ اللہ تم پر احسان فرماتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان لانے کی ہدایت دی، اگر تم سچے ہو‘‘۔ (الحجرات: 14-17)

ذاتِ رسالت مآبؐ جملہ اہلِ ایمان سمیت پوری کائنات کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت ہیں اور اللہ تعالیٰ کے جملہ انعامات میں سے یہ واحد نعمت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان پر تاکیدات کے ساتھ احسان جتلایا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو بے شمار ہیں اور اُن کا احاطہ کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور اگرتم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو اُنہیں شمار نہیں کر پائو گے‘‘۔ (ابراہیم: 34) شیخ سعدی شیرازی نے کہا: ’’سانس اللہ کی بیش بہا نعمت ہے، ہر وہ سانس جو انسانی وجود کے اندر آتی ہے، اُس سے انسان کی حیات ایک سانس کی مقدار دراز ہوجاتی ہے، ورنہ انسان کی موت واقع ہوجائے اور ہر وہ سانس جو باہر آتی ہے، فرحت وانبساط کا باعث بنتی ہے، ورنہ دم گھٹنے سے انسان کی موت واقع ہوجائے‘‘۔

سیدنا ابو بکر صدیق کی رسول اللہ ؐ سے فطری مناسبت کا عالَم یہ تھا کہ جب آپ غارِ حرا سے پہلی وحیِ ربّانی لے کر اپنے گھر آئے اور بشری تقاضے کے تحت آپ پر نبوت کی بھاری ذمّے داری کے احساس سے گھبراہٹ طاری تھی تو آپ کی رفیقۂ حیات سیدنا خدیجۃ الکبریٰؓ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ کبھی بھی آپ کو شرمندگی سے دوچار نہیں فرمائے گا، کیونکہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، ناداروں کے کام آتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبت میں مبتلا لوگوں کی مدد کرتے ہیں‘‘۔ (بخاری) اسی طرح جب سیدنا ابوبکر صدیق اہلِ مکہ کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت کے ارادے سے نکلے تو راستے میں مکے کے ایک رئیس ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی، اُس نے کہا: ’’(اے ابو بکر!) آپ جیسے بلند کردار کے حامل شخص کو نہ تو اپنا وطن چھوڑ کرجانا چاہیے اور نہ ہی ایسے شخص کو جلاوطن کرنا چاہیے، کیونکہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، ناداروں کے کام آتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی خاطر مصیبت میں مبتلا لوگوں کی مدد کرتے ہیں‘‘۔ (سبل الھدیٰ والرشاد)