’’سوال نہیں، جواب دو‘‘

649

ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں حاضر سروس وزیراعظم نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے ملکی نظامِ عدل پر بڑے سنگین سوالات ہیں اور جب تک ان کا جواب تلاش نہیں کر لیا جاتا، یہاں پر کسی کا بھی محفوظ رہنا مشکل ہے۔ اصول سب کے لیے یکساں ہونے چاہییں اور ان کا نفاذ بھی سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہیے‘‘۔ عجب حال بلکہ المیہ ہے کہ نظام کی اصلاح کے ذمہ داران سلگتے سوالوں کے جواب دینے کے بجائے نظام کی خرابی پر خود سوالات اٹھا کر مدعی بن رہے ہیں۔ کاکڑ صاحب! سوالات صرف عدلیہ پر نہیں، مقننہ، انتظامیہ اور ملک کے ہر ادارے پر اٹھ رہے ہیں۔ جواب کسی کا نہیں مل رہا۔ اداروں کی بے توقیری اغیار کریں تو شاید اتنا بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا جتنا اپنوں کی طرف سے کیے جانے والے احمقانہ حرکات سے پیدا ہوتا ہے۔

عدلیہ کے وقار کو سب سے زیادہ نقصان مجرموں سے نہیں، منصفوں کی مصلحت آمیز اور دبائو میں دیے گئے فیصلوں اور کھلی نا انصافی سے پہنچتا ہے۔ عدلیہ کیخلاف لکھے جانے والے سو دو سو کالم یا تقریریں اتنی خطرناک نہیں جتنا کسی کرپٹ جج کا ایک غلط اور جانبدارانہ فیصلہ! ایک بد دیانت جج تالاب کی ایک گندی مچھلی کی طرح پورے نظام کی عزت کو داو پر لگا دیتا ہے۔ تقریباً ساٹھ سال پہلے جسٹس منیر کے ایک فیصلے کے کڑوے زہریلے اثرات آج تک زائل نہیں ہوئے۔ بھٹو کے خلاف سیاسی مقاصد یا انتقام پر مبنی عدالتی فیصلہ عدلیہ کی بدروح بن کر پورے نظام عدل کو اب تک وحشت ناک بنائے ہوئے ہے۔ ایوب خان کا مارشل لا فوج جیسے محترم ادارے کے لیے اچھا نام نہیں ہے۔ ایوب خان کی اسی قانون شکنی سے شہ پا کر یحییٰ خان کو قوم اور جمہوریت کو غلام بنانے کی ہمت ہوئی۔ اس نے طاقت اور شراب کے نشے میں ملک دولخت کردیا۔ فوج کو بزدل دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی بدترین ذلت اٹھانا پڑی۔ جنرل ضیاء نے ایوب خان اور یحییٰ خان کے اقدام سے شہہ پائی اور ملک کے اقتدار پر مسلط ہو کر قوم کے گیارہ سال برباد کردیے۔ جنرل مشرف نے نو سالہ دور میں ادارے کے رہے سہے وقار کو خاک میں ملانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ججوں کے غلط فیصلے عدلیہ کو بے توقیر کرتے ہیں۔ مقننہ کے شخصی یا گروہی مفادات کے لیے بنائے گئے قوانین کی وجہ سے پارلیمنٹ کا احترام باقی نہیں رہتا۔ نتیجتاً اس کے بنائے ہوئے قوانین قابل قبول نہیں رہتے۔اداروں کے بیرونی دشمن اداروں کے اندر موجود اسی قسم کے ناپسندیدہ افراد کے غلط اقدامات کو اپنی منفی مہمات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جس نے پاکستان کی بہادر افواج کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا ہو تو وہ آمرجرنیلوں کی قانون شکنی، آئیں شکنی اور من مانیوں کو مثال بناتا ہے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بڑی بڑی انفرادی غلطیوں کے باوجود ملکی ادارے ہرصورت قابل احترام ہیں اور رہنے چاہئیں۔ ہر وہ شخص جو ادارے کو بحیثیت ادارہ بدنام کرکے کمزور کرنا چاہتا ہے وہ کبھی بھی ملک کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔ پروپیگنڈہ کے دور میں محب وطن لوگوں کو سازشی ذہنوں کو سمجھنا چاہیے اور ملک دشمنوں کی چالوں میں آ کر جذبات میں بہنے سے بچنا ہوگا۔ فوج اگر بحیثیت ادارہ کمزور اور قوم کی حمایت سے محروم ہوتی ہے تو ملک کا دفاع کمزور ہوتا ہے۔ تنقیدی سوچ میں اداروں کے نظام میں بہتری مقصود اور ملک و قوم کی بقا مطلوب و مقدم رہنی چاہیے۔ افراد کی آڑ میں اداروں کے خلاف منفی مہم اجتماعی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ اداروں کے اندر اداروں کی بدنامی کا باعث بننے والوں کی بیخ کنی اداروں کے ذمہ داران کو خود کرنی چاہیے۔ اداروں کی بدنامی کا باعث بننے والے افراد کا کڑا احتساب اور ان کے آئین شکن اقدامات سے لاتعلقی اداروں کی مضبوطی اور ان کے وقار میں اضافے کا وسیلہ بنے گی۔

سوشل میڈیا پر چلنے والی اکثر منفی مہمات کے پیچھے ملک دشمن اور دشمن ملک ہوتے ہیں۔ بلا سوچے سمجھے ہر منفی مہم میں حصہ ڈالنا عقل مندی نہیں ہے۔ اپنے ملک، اپنی قوم، اور اپنے اجتماعی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ افراد نہیں، ہمارے تمام ادارے مضبوط ہوں۔ اصلاح کی خاطر افراد پر تنقید ضروری ہے لیکن اداروں کو کمزور کرنا ملک کے لیے بہتر کاکڑ صاحب کی باتیں غور طلب ہیں۔ ملک کے جو بھی حقیقی وارث ہیں ان کو سوچنا ہوگا کہ عدلیہ، انتظامیہ، پارلیمنٹ اور دفاعی اداروں کی بے توقیری کا سبب کون بن رہا ہے؟ اداروں کے اپنے لوگ یا کوئی اور؟