سال 2024 کے چیلنجز

536

سال 2023 تلخ وشیریں یادوں کے ساتھ رخصت ہوگیا ہے اور سال 2024 کا سورج نئے چیلنجز کے ساتھ طلوع ہوچکا ہے۔ سال 2024 میں 8فروری کو قومی انتخابات کا انعقاد بھی ہے اس لحاظ سے یہ سال بڑی ہی اہمیت کا حامل ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سمیت بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کے کاغذادت مسترد ہوجانے کی وجہ سے ملک سیاسی کشمکش اور محاذ آرائی عروج پر پہنچنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی شروع ہونے کے ساتھ ہی دہشت گردی کی لہر میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے اور دہشت گرد قوتیں ایک بار بھی سر اٹھا رہی ہیں جس کے نتیجے میں فورسز کے ساتھ ساتھ شہریوں کا جانی ومالی نقصان بھی ہورہا ہے۔ سال 2024 سیاسی، معاشی دفاع اور خارجہ امور کے حوالے سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل رہے گا۔ پاکستان اپنے خراب معاشی حالات کی وجہ سے معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔ ماہ اپریل میں آئی ایم ایف کا معاہدہ اختتام پزید ہوجائے گا لہٰذا بین الاقوامی عالمی قوتوں کی ان انتخابات میں گہری نظر ہے اور آنے والے تین سال کے لیے آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونا ہے لہٰذا ان قوتوں کی خواہش ہے کہ پاکستان میں ایسی حکومت برسراقتدار آئے جو ان کے معاہدوں کی پاسداری کرسکے۔
پاکستان میں انتخابات کے بعد سیاسی اور معاشی استحکام انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کی دم توڑتی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے طویل مدتی پالیسی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ جس کے لیے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ایک ساتھ بیٹھنا ہوگا اس کے لیے صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ معاشی بحران کے ساتھ ساتھ سیاسی بحران بھی گہرا ہوتا جارہا ہے اور معاشی بحالی کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہم ملک میںسیاسی استحکام کو برقرار رکھے اور سیاسی بحران ملک کی معیشت کے لیے زہر قاتل ہے۔ پاکستان میں غیریقینی صورتحال پہلے بھی رہی ہے لیکن اس وقت جو گومگو کی صورت حال ہے اس سے پاکستان کے معاشی بحران میں اضافے کا خدشہ ہے۔ پاکستان 1958سے اب تک انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے 23بیل آوٹ پیکیجز حاصل کرچکا ہے لیکن اس کے باوجود ملک معاشی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے بلکہ قرضوں تلے پوری قوم کو دبا دیا گیا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کا ایگزیکٹو بورڈ گیارہ جنوری کو پاکستان کے لیے قرض کی منظوری دے گا منظوری کے بعد پاکستان کو 70کروڑ ڈالر کی قسط ملے گی۔ 2023 میں ماہ جولائی میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ تین ارب ڈالر کے بیل آوٹ پیکیج معاہدہ کیا تھا جس کے تحت پاکستان کو پروگرام میں سے 1.2ارب ڈالر پہلے ہی مل چکے ہیں مزید 70کروڑ ڈالر ملنے سے جاری کردہ رقم 1.9ارب ڈالر ہوجائے گی اس کے علاوہ دوسرے اقتصادی جائزہ مذاکرات فروری 2024 میں ہوں گے۔
آئی ایم ایف کا پاکستان سے تعلق اس کے دوسرے ممالک کے تعلق کے مقابلے میں اب بدل چکا ہے کیونکہ پاکستان میں آئی ایم ایف براہ راست معیشت کو کنٹرول کررہی ہے اور پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ اس لیے حاصل نہیں کرتا کہ اس سے ہماری معیشت بہتر ہوگی بلکہ پاکستان یہ قرض گزشتہ قرض کو اتارنے کے لیے لیتا ہے۔ آئی ایم ایف کا سارا زور اس پہلو پر ہے کہ پاکستان سے قرضوں کی قسط کیسے وصول کی جائے جو زیادہ سے زیادہ پیسے اکٹھے کرنے کی صورت میں پورا ہوسکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ایما پر ہی صنعتی اور گھریلو صارفین کے بجلی، گیس کے نرخوں میں اضافہ معاشی صورتحال کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہورہا ہے اور سال 2024 میں مزید مشکلات پیدا ہوں گی اور عوام براہ راست متاثر ہوں گے۔ سال 2024کا سب سے بڑا چیلنج صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔ سال کی پہلی سہ ماہی میں سیاسی عدم استحکام جاری رہے گا یہ سال عدلیہ کے حوالے سے بھی بڑا چیلجنگ رہے گا بدقسمتی سے پاکستان کے عوام کا عدلیہ پر مکمل اعتماد بحال نہیں ہوسکا ہے اور عدلیہ کو عوام میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے اپنا جائزہ لینا ہوگا۔
نئے سال میں دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے سیکورٹی اداروں کو آہنی ہاتھ استعمال کرنا ہوگا۔ 2023 میں سیکورٹی فورسز نے ملک بھر میں18736انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے ان آپریشنوں کے نتیجے میں 566 دہشت گرد ہلاک ہوئے جب کہ 5161دہشت گرد گرفتار کیے گئے۔ فوج کے دو سو ساٹھ سے زائد افسران اور جوانوں سمیت تقریباً ایک ہزار سے زائد افراد نے وطن کی خاطر اپنی انوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس کے علاوہ غزہ اور یوکرین کی جنگوں میں امریکا اور چین کے تنائو کی وجہ سے عالمی منظر نامہ بحرانی کیفیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالے ہیں اور غزہ فلسطینیوں کا قبرستان بن چکا ہے ایسے میں اقوام متحدہ اور اوآئی سی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اسرائیل اب دنیا میں تنہا ہوتا جارہا ہے اور اس کا اتحادی برطانیہ بھی اسرائیل کی درندگی پر چیخ اٹھا ہے اور دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔
مسلمانوں کی جانب سے اسرائیلی اور مغربی مصنوعات کے بائیکاٹ نے مغربی سرمایہ کاروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور یہ بائیکاٹ اسی طرح جاری رہا تو مغربی معیشت ڈوب جانے کا خطرہ لاحق ہوتا جارہا ہے اور سال 2024 فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کے دنیا کے نقشے سے مٹ جانے کا سال بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار داوں کے مطابق اب تک التوا کا شکار ہے اور بھارت رائے شماری سے مسلسل راہ فرار اختیار کررہا ہے اور تو اور اب مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کی طرح غیر کشمیریوں کو آباد کیا جارہا ہے اور کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازشش کی جارہی ہیں لیکن تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیریوں کی تحریک آزادی دب نہیں سکی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جیل میں تبدیل کردیا ہے لیکن مودی سرکارکو سوائے ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ 2024 میں تحریک آزادی کشمیر اور زیادہ توانا ہوگی اور حماس کی طرح کشمیری مجاہد بھارت کو ناک کے چنے چبوا دیں گے۔