2023ء پاکستان کی تاریخ کا ایک ہنگامہ خیز سال تھا۔ جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لیے ماضی میں کی گئی ساری سیاسی جدوجہد غارت چلی گئی۔ غیر مستحکم سیاست نے ملک کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار رکھا۔ سال کی پہلی ششماہی میں شہباز شریف کی قیادت میں حکمران جماعت کا اتحاد اپوزیشن کا احتجاج روکنے میں ناکام رہا۔ سیاسی تناؤ اور سیاسی تقسیم (پولرائزیشن) میں اضافہ ہوا۔ سال کی دوسری ششماہی میں پی ڈی ایم کے 13 جماعتی اتحاد کے 16 ماہ کے اقتدار کا خاتمہ ہوا جو متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکا۔ طرزِ حکمرانی کا عالم یہ تھا کہ تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ تشکیل دی گئی تاکہ سب اتحادیوں کو خوش رکھا جا سکے۔ ملک اپنی تاریخ کے بدترین معاشی اور سیاسی بحران میں پھنس گیا۔ ملک قرضوں کی عدم ادائیگی کے وجہ سے ڈیفالٹ کے دہانے پر آ گیا۔ اوائل ِ حکومت ہی میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو تبدیل کر دیا گیا جو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ اسحاق ڈار بھی بُری طرح ناکام ہوئے۔ پہلے آئی ایم ایف کے سامنے اکڑے، پھر جُھکے اور پھر سخت شرائط کے ساتھ قرض کا ایک اور معاہد ہ کر لیا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ معاہدے اور چین کی جانب سے قرضوں کے اجراء اور عرب ممالک کے ڈیپازٹس سے معاشی صورتحال عارضی طور پر سنبھل گئی مگر پھر بے لگام ہو گئی۔ حکومت ِ پاکستان نے عوام پر مہنگائی کے بم برسائے۔ بھاری بھر کم ٹیکس لگانے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ افراطِ زر نے اخراجاتِ زندگی اور عوام کے معاشی بوجھ میں اضافہ کر دیا۔ بجلی کے بلوں میں اچانک اور تیز رفتار اضافے نے بڑے پیمانے پر بے چینی، عدم اطمینان اور احتجاج کو ہوا دی جس نے معیشت اور حکومت کو بے وقعت کر دیا۔ پی ڈی ایم حکومت نے اپنے آخری دنوں میں آنے والی نگران حکومت کے اختیارات میں بے محابہ اضافہ اور متنازع مردم شماری کی منظوری دے کر عام انتخابات کے بروقت انعقاد کو ناممکن بنا دیا۔ چنانچہ الیکشن کمیشن جو پہلے ہی متنازع ہو چکا تھا، کو موقع مل گیا کہ وہ نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کے نام پر بروقت انتخابات کو ناممکن بنا دے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے بعد تیز رفتار سرمایہ کاری کے لیے ’’خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل‘‘ کی تشکیل میں آرمی چیف پیش پیش رہے۔
اگست 2023ء میں نگراں حکومتوں نے ملک اور صوبوں کا انتظام سنبھالا۔ آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، شہباز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ افراد اور ٹیکنو کریٹس کو وفاقی اور صوبائی کابینہ کا حصہ بنایا گیا۔ صوبہ پنجاب میں ’’مسلم لیگ ن‘‘ صوبہ خیبر پختون خوا میں ’’جے یو آئی ف‘‘ صوبہ سندھ میں ’’ایم کیو ایم‘‘ اور صوبہ بلوچستان میں ’’باپ‘‘ سے تعلق رکھنے والے حضرات کو گورنرز مقرر کیا گیا۔ نگراں حکومت نے اہم فیصلے، جن میں معیشت بھی شامل تھی، فوجی اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے کیے۔ بڑے قومی اداروں کی نجکاری کا عمل تیز کردیا گیا جبکہ صوبہ خیبر پختون خوا اور صوبہ بلوچستان کے شہروں پر کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد حملوں میں اضافے کے بعد کابل کے بارے میں حکومتی پالیسی زیادہ سخت کر دی گئی۔ غیر ملکی شہریوں خصوصاً افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے کیا۔ چنانچہ غیر قانونی لاکھوں مہاجرین کو افغانستان واپس بھیج دیا گیا۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر عام انتخابات کروانا نگران حکومت کا اصل فرض تھا مگر خاموشی سے حیلے بہانوں کے ذریعے اُس کا مدتِ اقتدار بڑھا دیا گیا اور بر وقت انتخابات روکنے کے لیے سیاسی اور عدالتی ڈرامے رچائے گئے۔ دوسری طرف مالی سال 2023ء میں اندرونی اور بیرونی مالیاتی عدم توازن بڑھ گیا۔ زرِمبادلہ کے ذخائر نچلی سطح پر چلے گئے، افراطِ زر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ ملکی اور غیر ملکی قرضے بڑھ گئے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی ہوئی، شرح نمو جمود کا شکار رہی، برآمدات اور ترسیلات زر میں کمی آئی اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بھی متاثر رہی۔ 2023ء میں سیاسی اتار چڑھاؤ نے ملک کے معاشی مستقبل پر جن سوالات اور خدشات نے جنم لیا تھا اُس سے پورا سال انتظامی اور سیاسی ڈھانچہ بھی ہچکولے لیتا رہا۔ سانحہ 9 مئی 2023ء کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے بڑے پیمانے پر ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور متعدد رہنماؤں کو سیاست اور پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر خان ترین نے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ ایک نئی سیاسی جماعت ’’استحکام پاکستان پارٹی‘‘ (آئی پی پی) بنالی۔ تحریک انصاف سے علٰیحدگی اختیار کرنے والوں کو نئی جماعت میں داخل کر وایا گیا۔ آئی پی پی میں زیادہ تر وہی لوگ شامل ہوئے، جنہوں نے ماضی میں ’’جنوبی پنجاب محاذ‘‘ بنایا تھا جو 2018ء کے عام انتخابات سے قبل پی ٹی آئی میں مدغم ہو گیا۔
پی ٹی آئی کے تتربتر ہونے کے بعد میدان مسلم لیگ (ن) کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا۔ نواز شریف خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے واپس آگئے۔ اُنہوں نے پارٹی کو متحرک کرنے کی کوشش کی۔ اندرونی اختلافات کو دُور کرنے اور دیگر جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم کرنے کے لیے جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ)، بلوچستان عوامی پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور سندھ گرینڈ نیشنل الائنس کے ساتھ انتخابی اتحاد بنانے اور انتخابی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے ہم آہنگی بھی کر لی مگر وہ اِس تاثر کو زائل کرنے میں ناکام نظر آئے کہ ’’اُن کی واپسی ڈیل کا نتیجہ ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے نئے لاڈلے ہیں‘‘۔ واپس آنے کے بعد نوازشریف عدالتی سزاؤں کو ختم کروانے میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں۔ نواز شریف کی آناً فاناً سزاؤں اور مقدمات سے بری ہونے سے عدالتی نظام کی ساکھ پر بھی کئی سوال اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
2023ء میں جماعت اسلامی نے ملک بھر میں اپنی تمام تر توجہ الیکشن کی تیاریوں پر مرکوز رکھی۔ مہنگائی کے خلاف بھرپور عوامی مہم چلائی۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے بعد ملک بھر میں اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں میں جماعت اسلامی کو غیر معمولی عوامی ریسپانس ملا جس سے جماعت اسلامی کی ساکھ میں اضافہ ہوا۔ جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی کے لیے 200 سے زائد اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے 500 سے زائد اُمیدوار نامزد کر دیے ہیں اور ایک جامع انتخابی منشور اور حکمت عملی کے ساتھ میدانِ عمل میں ہے اور آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے انتخابی اتحاد نہ کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔
2023ء میں یہ سوال تواتر سے گونجتا رہا کہ کیا عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے؟ بہرحال جب صدرمملکت اور الیکشن کمیشن باہم متصادم ہوئے اور بات عدالت ِ عظمیٰ تک پہنچی تو عدالت ِ عظمیٰ نے کمال حکمت سے معاملہ کو سنبھالا۔ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کو واضح حکم دیا کہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں چنانچہ ریاستی اداروں کی باہمی مشاورت سے 8 فروری 2024ء کو عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری اور گورنر خیبر پختون خوا غلام علی نے دو صوبوں میں دہشت گردی اور شدید سردی کے عذر پیش کیے۔ علاوہ ازیں الیکشن کمیشن نے بھی ایسے حالات پیدا کرنے شروع کیے جس میں انتخابات کا التوا پھر دکھائی دینے لگا چنانچہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو عدالت ِ عظمیٰ طلب کیا اور سماعت کرکے اُسی دن عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرنے پر مجبور کر دیا۔ عدالت ِ عظمیٰ نے انتخابی حلقہ بندیوں پر اعتراضات کو موخر کر دیا جس پر جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ اُن کے حلقوں کو جان بوجھ کر تقسیم کیا گیا۔ ہائی کورٹ کا اُن کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد الیکشن کمیشن کا حلقہ بندیاں دُرست نہ کرنا نا انصافی ہے۔ پیپلزپارٹی بھی کہہ رہی ہے کہ اُنہیں لیول پلینگ فیلڈ نہیں دی جا رہی۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی ایکشن کالعدم قرار لے کر انتخابی نشان ’بلا‘ واپس لے لیا لیکن 26دسمبر 2023ء کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کردیا تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ تبدیل کروانے کے لیے انٹرا کورٹ اپیل کے ذریعے لارجر بنچ بنانے کی استدعا کی ہے۔ پی ٹی آئی کا بھی دعویٰ ہے کہ اسے انتخابی عمل سے باہر کیا جا رہا ہے اور اُن کے اُمیدواروں کو دھمکایا جا رہا ہے۔ اس دوران ریٹرننگ افسران نے متعدد سیاسی رہنماؤں اور اُمیدواران کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ انتخابات سے قبل یہ تاثر راسخ ہو رہا ہے کہ مردم شماری، حلقہ بندیاں، انتخابی حلقوں کی تقسیم، نگران وفاقی اور صوبائی حکومتیں، الیکشن کمیشن، صوبائی گورنرز اور الیکشن کے عملہ سمیت پورے کا پورا انتخابی عمل متنازع ہے۔ 2023ء کا ڈھلتا سورج یہ سوال چھوڑے جا رہا ہے کہ ایسے ماحول میں 8 فروری 2024ء کے انتخابات منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارنہ کیسے ہوں گے اور کیا نئی حکومت جمہوری کہلائی جائے گی جس کو سیاسی اور معاشی استحکام لانا ہے۔