نیا سال کچھ اس طرح منائیں

625

ہم نئے سال میں داخل ہو گئے ہیں، نیا سال ہر کسی کے لیے ایک نیا آغاز ہوتا ہے۔ یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی گزشتہ زندگی سے سیکھیں اور نئے اہم مقصد کا تعین کریں۔ یہ ہمیں اپنے خود کو بہتر بنانے کا موقع دیتا ہے اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے، کامیاب شخص وہی ہوتا ہے جو اپنے ماضی سے سبق حاصل کرے، نئی اْمیدیں نئے حوصلے ہوں تو روح میں نیا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ ہمیں محنت، عزم، اور استقامت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ نئے سال میں اپنے لیے نئے اہداف تعین کریں، اور اس پر اخلاص سے عمل پیرا ہوں، اور اپنی گزشتہ سال کی غلطیوں کی اصلاح کریں، اور ایک بہترین معاشرہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، محترم وزیر اعظم نے قوم سے درخواست کی ہے کہ فلسطین کے مظلوم بہن بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے، نئے سال کے حوالے سے کسی تقریب کا اہتمام نہ کیا جائے، آتش بازی، فائرنگ سے اجتناب کریں، فلسطین میں ظلم اور بے انصافی کے خلاف ہونے والے مظلوم بہن بھائیوں کے لیے نئے سال میں یکجہتی کا پیغام بھیجنا ہمارا دینی فریضہ بھی ہے، اس موقع پر ہم نے پوری دْنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے نئے سال کی روایتی تقریبات کو نہ صرف مْسترد کیا بلکہ نئے سال کے آغاز پر اپنے ربّ کے حضور اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کی نصرت اور فتح کے لیے بارگاہ ربّ العزت میں دْعائیں مانگ کر نئے سال کا آغاز کیا، اپنے اس طرح عمل سے دْنیا بھر کے لوگوں کو انصاف کے لیے اٹھ کھڑا ہونے کی دعوت دینی ہو گی، اور ہمیں اپنی آواز کو بلند کرکے دنیا کو یہ بتانا ہوگا کہ فلسطینیوں کی آزادی اور انصاف ہمارا مشترکہ مقصد ہے، اور ہم اس مقصد کے لیے متحد ہیں۔

نیا سال ہمارے لیے وقتی لذت یا خوشی کا باعث تو بن سکتا ہے، مگر عقل مند وہی ہے جو گزرے ہوئے وقت اور آنے والے لمحات کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کے ساتھ ازسر نو اپنے عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کی جستجو میں رہتا ہے، دعا کریں کہ نئے سال میں ہمیں سال ِ ماضی کی نسبت کارِ خیر اور نیکی و تقویٰ کی زیادہ توفیق سے نوازے۔ اے اللہ! ہمارے جو بھائی فلسطین، افغانستان، ہند، کشمیر، بلغاریہ، چین، روس اور کسی بھی جگہ، سروں پر کفن باندھے جان بکف ہوکر عقیدۂ توحید و ختم ِ نبوت، شعائر ِ اسلام وتحفظ کے لیے بر سرپیکار ہیں، انہیں فتح و نصرت سے سر فراز فرما، اسلامی سال ِ نو کے آغاز پر ذکر ِ الٰہی کی کثرت کے ساتھ ساتھ ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی ہمت و فکر کے مطابق اپنے سال ِ ماضی کا بھر پور جائزہ لے کہ اس نے ارکان ِ اسلام اور اللہ و رسول کے احکام میں کہاں کہاں کوتاہی کی ہے؟ اور کن کن نیک کاموں میں حصہ لیا ہے۔ اس طرح اپنے ماضی کے آئینہ میں جھانک کر مستقبل کے لیے بہترین پروگرام مرتب کریں اور تجدید ِعہد کریں کہ آج سے ہی سابقہ تمام کوتاہیوں کا یکے بعد دیگرے ازالہ کرتا جائوں گا اور اعمالِ خیر میں بیش از پیش حِصہ لوں گا، ہر رات کو سونے سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کروں گا، کہ آج میں نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اگر اس کے باوجود بھی جو نئے سال کا جشن اور آتش بازی میں مصروف رہا تو وہ یہ جان لے اللہ نے اس کے قلب کو سیاہ کر دیا ہے، کیونکہ وہ اپنے فلسطینی بھائی کا وہ کرب بھول گیا جو اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی 7 سالہ شہید بچی کو اوپر اْٹھا کر اپنے ربّ سے کہ رہا ہے اللہ میں تجھ سے راضی ہوں تو بھی مجھ سے راضی ہو جا، یا پھر اس ماں کا درد بھول گیا جو اپنی 10 ماہ کی ملبے میں دبی بچی کی لاش پا کر کفن مانگ رہی ہو، ایسے ہزاروں دل خراش واقعات ہیں جو ہم جلد بھول جاتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالی نے ہر دور میں حق و باطل کو نمایاں کر کے دکھایا ہے تاکہ وہ یہ جان لے کون حق کے ساتھ ہے کون باطل کے ساتھ۔

آج فلسطین حق پر ہے تو باطل اسرائیل کا ناپاک وجود ہے، جس کے ظلم سے غزہ کی سرزمین سْرخ ہے تو پھر فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ کس کے ساتھ ہیں۔ ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور وہ دن دور نہیں جب ظلم کا خاتمہ اور عدل کا نظام قائم ہو گا اور مظلوم فلسطینیوں کو ان کی آزادی کے حقوق میسر آئیں گے ان شاہ اللہ، رسول اللہؐ کا فرمان ہے: ’’من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘، یعنی جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس حدیث مبارکہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہم سب کو اس لہو ولعب رسم سے محفوظ رکھے۔ (امین)