لاپتہ افراد کا معاملہ سیاسی نہیں بننے دیں گے ،چیف جسٹس

251
greatest

اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لاپتہ افراد و جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس میں وکیل شعیب شاہین کے دلائل پر ریمارکس دیئے کہ آپ معاملے کو سیاسی بنانا چاہتے ہیں تو یہ فورم نہیں ہے،ہم پارلیمنٹ کوقانون سازی کا حکم نہیں دے سکتے،ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

لاپتہ افراد و جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس کی سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار خوشدل خان ملک نے کہا کہ عدالت حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بنا تو ہوا ہے، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کون سا کمیشن بنا ہے؟۔

درخواست گزار نے دلائل میں کہا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کمیشن بنایا گیا لیکن اس نے اب تک کچھ نہیں کیا، عدالت حکومت کو نوٹس کر کے پوچھے کہ 50سال سے لاپتہ افراد کے بارے قانون سازی کیوں نہیں کی؟۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو؟ آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔ 

جسٹس محمد علی مظہر نے واضح کیا کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی صرف قانون کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو اعتزاز احسن کے وکیل نہیں ہیں، جس پر شعیب شاہین نے بتایا کہ لطیف کھوسہ کا بیٹا گرفتار ہے تو مجھے وکالت نامہ دیا گیا، ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کئے گئے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اعتراضات کو خارج کر کے درخواستیں سن رہے ہیں کیونکہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، میری غیر موجودگی میں کچھ ہوا اور میں نے واپس آتے ہی یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی ہیں، اعتزازاحسن نے درخواست میں کن تحفظات کا اظہار کیا۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لوگوں کی گمشدگی اور پھر ایک طرح سے نمودار ہونے کا نقطہ اٹھایا گیا، عدالت نے سوال کیاکہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم کیا کریں اپنی استدعا بتائیں۔ 

وکیل نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ یہ کمیشن کب کا ہے تب کس کی حکومت تھی، شعیب شاہین نے بتایا کہ 2011 میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران کمیشن بنا۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اعتزازاحسن کیا اپنی ہی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کرنا چاہتے ہیں۔

شعیب شاہین نے بتایا کہ کمیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق ابھی تک 2200 لوگ لاپتہ ہیں۔ جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کتنے لوگ بازیاب ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اعتزاز احسن خود پیپلزپارٹی حکومت میں وزیر بھی رہے، جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ جب کمیشن بنا وہ شاید وزیر نہیں تھے۔ 

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اعتزاز احسن کیا اس وقت بھی پیپلزپارٹی میں ہیں؟ شعیب شاہین نے بتایا کہ جی وہ ابھی پیپلزپارٹی میں ہیں۔شعیب شاہین نے شیخ رشید، صداقت عباسی اور دیگر کی گمشدگیوں کا معاملہ بھی اٹھایا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ سب لوگ خود ہمارے سامنے درخواست گزار بنے ہیں؟ کیا یہ سب وہ لوگ ہیں جو خود وسائل نہیں رکھتے کہ عدالت آ سکیں؟ آپ اس معاملے کو سیاسی بنانا چاہتے ہیں تو یہ فورم نہیں ہے، جو شخص دھرنہ کیس میں نظرثانی لا سکتا ہے کیا اپنا کیس نہیں لگا سکتا، کل شیخ رشید کہہ دیں انھیں کوئی مسئلہ نہیں شعیب شاہین کون ہیں میرا نام لینے والا؟ شیخ رشید خود کتنی بار وزیر رہ چکے؟ کیا آپ شیخ رشید کو معصوم لوگوں کی کیٹیگری میں رکھیں گے؟۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا اس بات پر رنجیدہ ہیں یہ پی ٹی آئی چھوڑ گئے؟ کیا ہم انہیں یہ کہیں کہ واپس پی ٹی آئی میں آ جائیں؟ یا تو کسی کو اعتزاز احسن کے سامنے اٹھایا گیا ہو تو وہ بات کرے یا کوئی خود آکر کہے مجھے اغواکیا گیا تھا تو ہم سنیں، آپ انکی جگہ کیسے بات کرسکتے ہیں؟ شعیب شاہین کیا آپ ان کے گواہ ہیں؟۔

شعیب شاہین نے کہا کہ پورا پاکستان گواہ ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ایسے ڈائیلاگ نہ بولیں، آپ نے صرف ایک پارٹی کے لوگوں کا ذکر کیا، یہ سب ہماری پارٹی چھوڑ گئے اسکا ہمارے پاس کوئی حل نہیں۔ ہم اس معاملے کو بہت سنجیدہ لینا چاہتے ہیں۔ 

شعیب شاہین نے کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد کا معاملہ بھی ہم نے درخواست میں اٹھایا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی مقاصد کے لئے عدالت کو استعمال نہیں ہونے دیں گے، اگر آپ ہمارا مذاق اڑائیں گے تو ہم اسکی اجازت نہیں دیں گے، محمد خان بھٹی کون ہے؟ اور آپ سے کیا تعلق ہے؟۔شعیب شاہین نے بتایا کہ پہلے یہ لاپتہ تھے اب پیش کر دیئے گئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کس منہ سے یہ بات کر رہے ہیں؟ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی اجازت نہیں دے سکتے۔ 

شعیب شاہین نے کہا کہ شیریں مزاری نے اس معاملے پر بل پیش کیا جو غائب ہوگیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس معاملے پر شیریں مزاری نے استعفیٰ دیا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مسئلہ یہ ہے کہ جب سب عہدے پر ہوتے ہیں تو ذمہ داری کوئی نہیں اٹھاتا، بل کیا سینیٹ سے غائب ہوا تھا؟ چیئرمین سینیٹ کون ہے کس کے ووٹ سے بنے تھے؟۔

شعیب شاہین نے بتایا کہ سینیٹرز کے ووٹ سے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بنے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نام لیں کہ کس پارٹی کے ووٹ سے بنے تھے۔ 

شعیب شاہین نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے اتحاد سے وہ چیئرمین سینیٹ بنے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی پارٹی کے ووٹ سے بنے، چیئرمین سینیٹ نے آپ کا بل گم کر دیا، کیا آپ نے اس پر انہیں ہٹانے کی درخواست کی؟، آپ نے چیئرمین سینیٹ پر ایک سنجیدہ الزام لگایا۔

شعیب شاہین نے کہا کہ میں نے درخواست میں اس معاملے پر کوئی استدعا نہیں کی، یہ سارا واقعہ ایک بیک گرائونڈ کے طور پر لکھا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے بل غائب ہونے کا ذکر کیا تو پھر صادق سنجرانی کو فریق تو بنائیں، بل اگر غائب ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے بہت بڑی سازش ہوئی، یہ کیس تو لاپتہ افراد سے لاپتہ بل کا کیس بن گیا ہے، ہمیں وہ بل دکھا تو دیں۔

شعیب شاہین نے بتایا کہ وہ بل میرے پاس نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے وہ بل یہاں سے پرنٹ نکلوا لیا ہے اور یہ بل تو شیخ رشید احمد کا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے عمران ریاض کا ذکر بھی کیا، یہ کون ہے؟ کیا عمران ریاض اب بھی لاپتہ ہے؟، کیا عمران ریاض اثر و رسوخ والے نہیں؟ کیا مطیع اللہ جان اغوا نہیں ہوئے تھے؟ آپ مطیع اللہ جان اور اسد طور کا نام شامل کیوں نہیں کرتے، آپ ان لوگوں کا نام لے رہے ہیں جو اس بات پر کھڑے ہی نہیں کہ وہ اغوا ہوئے جبکہ مطیع اللہ جان اور اسد طور نے تو نہیں کہا کہ وہ شمالی علاقہ جات گئے۔

شعیب شاہین نے کہا کہ میں مطیع اللہ جان کے کیس میں پیش ہوا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم یہ سب کچھ ہونے سے پہلے اس وقت نوٹس لے کر کیس چلا رہے تھے لیکن اس وقت وہ کیس نہیں چلنے دیا گیا، آپ بغیر کسی تفریق کے سب صحافیوں کے نام لکھ دیتے۔

شعیب شاہین نے دلائل میں کہا کہ میں 2023 میں بات کروں گا تو انہی کا ذکر کروں گا جن کو اٹھایا جا رہا ہے، ان کا ذکر نہیں کروں جن کو پروٹوکول مل رہا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کوئی فہرست لگائی کون کب سے لاپتہ ہے؟ آپ نے کہا وزیراعظم نے جو 50 لوگوں کے گم ہونے کی بات کی وہ غلط ہے، آپ تاریخوں کے ساتھ فہرست دیتے تو ہم دیکھ لیتے تب کس کی حکومت تھی، ہو سکتا ہے اس میں آپ کی حکومت بھی آجاتی۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ لاپتہ افراد کمیشن کا سربراہ کون ہے؟ شعیب شاہین نے بتایا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کمیشن کے سربراہ ہیں۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ جاوید اقبال سے مطمئن ہیں یا تبدیل کرانا چاہتے ہیں۔ 

شعیب شاہین نے کہا کہ میں چاہتا ہوں ایک عالمی میعار کا نیا کمیشن بنے، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کی حکومت نے جاوید اقبال کو تبدیل کیا؟۔شعیب شاہین نے بتایا کہ جاوید اقبال کو کسی حکومت نے تبدیل نہیں کیا۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ذمہ داری نہیں لے سکتے؟ وکیل نے کہا کہ میں اس معاملے کی ذمہ داری نہیں لے سکتا، کیس خارج کروا سکتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیس اب خارج نہیں کرنے دیں گے، ہم اس مسئلے کا حل ڈھونڈیں گے، شعیب شاہین نے کہا کہ انشا اللہ ہم یہی چاہتے ہیں۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان ہم سب کا ہے ملکر ہی چیزیں ٹھیک کرنا ہوں گی، ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے سے نفرتیں کم نہیں ہوتی یہ بہت کر لیا، ایک وزیر اپنے بل کی حفاظت نہیں کرسکتی، لاپتہ افراد کی حفاظت کیسے کریں گی؟۔عدالت میں صادق سنجرانی کے پہلے انتخاب اور عدم اعتماد کے تذکرے بھی ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد ناکام کیسے ہوا تھا، کیا ووٹ بھی لاپتہ ہوگئے تھے، کیا یہ کیس لاپتہ افراد کا ہی ہے یا لاپتہ چیزیں بھی آ جائیں گی، بل بھی لاپتہ ہوگیا اور ووٹ بھی لاپتہ ہوگئے، آپ نے اسی وقت اپنا چیئرمین سینیٹ بھی بنوا لیا تھا۔شعیب شاہین نے کہا کہ ہمارا چیئرمین نہیں ہے جن کا ہے اللہ انہیں نصیب کرے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نگران حکومت کو صرف ان کے دور میں گم ہوئے لوگوں کا ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں، ہم لاپتہ افراد کے مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کرنا چاہتے ہیں، لاپتہ افراد میں کئی وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جو جہادی تنظیموں کے ساتھ چلے جاتے ہیں، یہ بھی دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ تنظیمیں جوائن کر لو، آپ کو پتہ ہے لوگ قتل ہوئے ہیں، جج قتل ہوئے ہیں، آپ کو پتہ ہے دو عدالتوں کے چیف جسٹس رہنے والے نور محمد مسکان زئی کو قتل کیا گیا۔

سماعت کل بدھ کو ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔