دہشت گردی کی نئی لہر

578

پاکستان میں گزشتہ چند ماہ سے دہشت گردی کی ایک نئی لہر آئی ہے، اس کا پھیلائو عمودی (Verticlally) اور اُفُقی (Horizontally) دونوں اعتبار سے ہے اور یہ اہلِ پاکستان کے لیے انتہائی تشویش کا سبب ہے۔ کہا جاتا ہے: اس کے پیچھے تحریک طالبانِ پاکستان ہے، لیکن دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی ذمے داری ایک نامعلوم تنظیم ’’تحریک جہاد پاکستان‘‘ نے قبول کی ہے، ابھی تک ہماری ریاست کو تحریکِ جہاد پاکستان کے محرّکات، تنظیمی ساخت، فکری مرکز اور قیادت کے بارے میں غالباً زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ تازہ ترین واردات صوبۂ خیبر پختون خوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں درابن کے مقام پر ہوئی ہے، میڈیا کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق 12دسمبر کو رات کے پچھلے پہر تقریباً تین بجے چھے حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی ایک تھانے کی عمارت سے ٹکرائی، جہاں سیکورٹی فورسز کے اہلکار تعیّنات تھے اور اس واردات میں 23فوجی جوان شہید ہوئے، یہ حالیہ دنوں میں ایک بڑی واردات تھی جس میں اتنی تعداد میں فوجی اہلکار شہید ہوئے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان سے لے کر صوبۂ خیبر پختون خوا تک وارداتوں کا ایک تسلسل ہے جو رکنے میں نہیں آرہا۔

یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ گوریلا جنگ میں پہل کا موقع دہشت گردوں کے پاس ہوتا ہے، وہ ایک خاص مقام کو متعین کرتے ہیں، پھر اُس کے قریب اپنے محفوظ ٹھکانے بناتے ہیں، اسلحہ اور بارودی سامان ذخیرہ کرتے ہیں، پھر کئی دن تک گردوپیش کا جائزہ لیتے ہیں، یعنی Recce کرتے ہیں اور پھر موقع پاکر اچانک حملہ کردیتے ہیں، جبکہ قومی سلامتی کے اُس مقام پر متعین اہلکار اپنی معمول کی ذمے داری انجام دے رہے ہوتے ہیں، وہ دشمن کے عزائم سے بے خبر ہوتے ہیں اور دشمن اچانک حملہ آور ہوتا ہے۔ لہٰذا بعض اوقات نقصان یک طرفہ ہوتا ہے یا دشمن کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا سدِّباب آسان نہیں ہوتا، انتہائی اعلیٰ درجے کے جاسوسی نیٹ ورک اور جاسوسی کے جدید ترین سامان سے ہی اس کا تدارک یا پیش بندی کی جاسکتی ہے کہ واردات سے پہلے دشمن کو قابو کرلیا جائے۔

یہ بھی کہاجاتا ہے: امریکا افغانستان سے انخلاکے وقت عجلت میں تھا اور وہ اپنے جدید ترین جاسوسی کے آلات اور حربی سازو سامان سمیٹ نہ سکا اور وہ مقامی جہادی گروپوں کے ہاتھ لگ گیا، واللہ اعلم بالصّواب۔ ان واقعات نے امارتِ اسلامیہ افغانستان اور ریاستِ پاکستان کے درمیان اعتماد کو کافی حد تک مجروح کیا ہے، دونوں طرف سے بے اعتمادی ہے، شکوے اور شکایات ہیں، پاکستان کی طرف سے شکایات کے اسباب بھی موجود ہیں اور وہ تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات کا ظہور پذیر ہونا اور قومی سلامتی کے اداروں اور عوامی اجتماعات کو نشانہ بنانا ہے۔

ہماری نظر میں امارتِ اسلامیہ افغانستان پر بہت بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے، کیونکہ جب تک دہشت گرد گروپوں کو محفوظ پناہ گاہیں دستیاب نہ ہوں، اسلحے اور بارود کی سپلائی کے محفوظ راستے نہ ہوں، نیز مقامی طور پر اُن کو سہولت کار دستیاب نہ ہوں، تو یہ کارروائیاں اتنی آسانی سے وقوع پزیر نہیں ہوتیں۔ اگرچہ امارتِ اسلامیہ افغانستان حکومتی سطح پر دہشت گردی کے ان واقعات سے برأت کا اعلان کرتی ہے، لیکن اس سے شکوک وشبہات کا ازالہ نہیں ہوتا۔ یہاں اس امر کی صراحت بھی ضروری ہے کہ دہشت گردی کی ان کارروائیوں کو کسی بھی توجیہ وتاویل یا کسی بھی عنوان سے شریعت کا جواز نہیں دیا جاسکتا، یہ محض دجل وفریب ہے اور شریعت کے مقدس عنوان کو باطل مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ خوارج نے بھی یہی شعار اور یہی طرزِ استدلال اختیار کیا تھا، انہوں نے ارشادِ ربانی ’’اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہ‘‘، (الانعام:57) کو باطل مقصد کے لیے استعمال کر کے امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰؓ اور سیدنا معاویہؓ کے معاہدۂ تحکیم پر کفر کا فتویٰ لگادیا تھا، اس پر امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا تھا: ’’یہ کلمہ تو حق ہے (کیونکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے)، لیکن اس سے باطل معنی مراد لیا جارہا ہے‘‘۔

دہشت گردی کی اس تازہ لہر اور ان تکلیف دہ واقعات کا صدمہ تو یقینا پوری پاکستانی قوم کو ہوتا ہے اور ہونا چاہیے، مگر ہماری قومی سلامتی کے اداروں میں شدید ردِّعمل پیدا ہوتا ہے جو فطری امر ہے، لیکن سب سے زیادہ تکلیف پاکستان کی دینی قوتوں کو ہوتی ہے، جنہوں نے افغانستان میں امارتِ اسلامیہ کے قیام سے بہت سی خوش گوار توقعات وابستہ کی تھیں، ان کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھا تھا اور یہ توقع قائم کی تھی کہ اب افغانستان میں ایک حقیقی اسلامی سلطنت قائم ہوگی جو پوری امت مسلمہ اور تمام مسلم ممالک کے لیے ایک مثال بنے گی۔ نیز پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بنیں گے، ایک دوسرے کے دست وبازو بنیں گے اور ہمارے دوست اور دشمن ایک ہوں گے، لیکن صد افسوس کہ یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا، بلکہ دونوں ممالک کے درمیان بے اعتمادی میں اضافہ ہوگیا اور صورتِ حال پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہوگئی۔

دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں پورے معاشرے میں پھیلادی ہیں اور دینی عناصر کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے، خار (باجوڑ) میں ایک مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے جلسے پر خود کش حملہ ہوا اور مستونگ (بلوچستان) میں میلاد النبی کے جلوس پر حملہ ہوا اور بڑی تعداد میں محبانِ رسول کو خود کش حملہ کرکے شہید کردیا اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔

اخوتِ اسلامی کا تقاضا ہے: مسلمان دوسرے کے دکھ کو اپنا دکھ اور اس کے درد کو اپنا درد سمجھیں، احادیثِ مبارکہ میں ہے:

’’سیدنا نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے، ایک دوسرے پر رحم کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آنے میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے ایک عضو کو کوئی تکلیف پہنچے تو سارا جسم (اس کے درد میں شریک ہوتا ہے اور) بیداری اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے‘‘، (مسلم) ’’سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ خود اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے (مصیبت میں) بے یارومددگار چھوڑتا ہے اور جو کوئی اپنے بھائی کی حاجت روائی کرے، اللہ تعالیٰ اُس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو کسی مسلمان سے تکلیف کو دور کرے، (اُس کی جزا کے طور پر) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی تکلیفوں میں سے کسی تکلیف کا ازالہ فرمائے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کے عیوب پر پردہ فرمائے گا‘‘۔ (بخاری)

تحریک طالبانِ افغانستان کی طویل جدّوجُہد اپنے وطن کی آزادی اور نظامِ اسلام کے قیام کے لیے تھی، اس کا تقاضا یہ تھا کہ ماضی کے تمام ادوار کے مقابلے میں امارتِ اسلامیہ کے دور میں دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات مثالی اور خوشگوار ہوں تاکہ دنیا میں اسلام کے بارے میں ایک خوشگوار تاثر پیدا ہو، سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی آزادی کی طویل جِدُّوجہد اور جہاد میں پاکستانی مسلمانوں نے بڑی تعداد میں عملاً حصہ لیا اور جو عملی میدان میں نہیں تھے، وہ بھی کم از کم اُن کے لیے دعا گو، اُن کے ہمدرد اور بہی خواہ تھے۔ پھر امریکی تسلّط کے دور میں بھی کئی پاکستانی ان کے جہادِ آزادی میں شریک رہے اور اسی بنا پر امریکا کو پاکستان سے شکایت بھی رہی۔ ہمیں معلوم ہے: تحریکِ طالبان افغانستان کو امریکی تسلّط کے دور میں پاکستان سے شکایات بھی رہی ہیں اور وہ کافی حد تک درست بھی ہیں، لیکن اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ بغض وعداوت، کینہ اور نفرت وانتقام کو دل سے نکالا جائے، حدیث پاک میں ہے:

’’سیدنا حذیفہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: تم اُن لوگوں کی طرح لکیر کے فقیر نہ بنو، جو کہتے ہیں: اگر لوگ اچھا برتائو کریں گے، تو ہم بھی اچھا برتائو کریںگے اور اگر وہ زیادتی کریں گے تو ہم بھی زیادتی کریں گے،

بلکہ اپنے نفوس کو شریعت کے تابع کرو (اور یہ کہو:) اگر لوگ اچھا سلوک کریں تو تم بھی اچھا سلوک کرو اور اگر وہ برا سلوک کریں تو تم زیادتی نہ کرو‘‘۔ (ترمذی) یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمائی: ’’نیکی اور برائی برابر نہیں ہیں، (اے مخاطَب!) برائی کو بہترین خصلت کے ساتھ دفع کر، تب وہ شخص کہ تیرے اور اُس کے درمیان دشمنی ہے، اس طرح ہوجائے گا جیسے وہ گہرا دوست ہو‘‘۔ (حم السجدہ: 34)

’’سیدنا عقبہ بن عامرؓ کرتے ہیں: میں رسول اللہؐ سے ملا تو آپ نے مجھ سے فرمایا: عقبہ! جو تجھ سے تعلق توڑے، اُس سے تعلق جوڑو، جو تجھے (ضرورت کے وقت) محروم رکھے، تم (اُس کی ضرورت کے وقت) اُسے دو اور جو تم پر زیادتی کرے، اُسے معاف کردو‘‘۔ (مسند احمد) آج لبرل حضرات پاکستان کے دینی عناصر پر طعن کر رہے ہیں کہ تم بے جا خوش فہمی میں مبتلا تھے، تحریک طالبانِ افغانستان کی کامیابی کو اپنی کامیابی گردانتے تھے، لیکن ہمیں پہلے بھی اندازہ تھا: وقت آنے پر معلوم ہوگا کہ درحقیقت ایسا نہیں ہوگا، یہ خوش فہمی ہوا ہوجائے گی اور جو کچھ ہم منظر پر دیکھ رہے ہیں، عملاً صورتِ حال یہی ہے۔ پس امارتِ اسلامیہ افغانستان سے ہماری گزارش ہے: دل بڑا کر کے اور پہل کر کے دونوں ممالک کے حالات کو معمول پر لائیں، ہمیں یقین ہے: آپ چاہیں تو حالات کو سدھار سکتے ہیں اور جو عناصر پاکستان میں فساد، تخریب اور دہشت گردی کے مرتکب ہورہے ہیں، انہیں قابو میں لاسکتے ہیں اور یہی طرزِ عمل دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے، اسلامی تعلیمات کا تقاضا بھی یہی ہے، ورنہ لوگوں کا دینی تحریکات پر اعتماد اٹھ جائے گا اور یہ ایسا نقصان ہوگا جس کی تلافی دشوار ہوگی۔

امارتِ اسلامیہ افغانستان پر سب سے زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے، کیونکہ اُن کی امارت کے قیام میں ہزاروں شہداء کا خون شامل ہے، امت مسلمہ نے امارتِ اسلامیہ افغانستان کے قیام سے اسلام کی نشأۃ ثانیہ اور نہضت کے بارے میں بڑی امیدیں قائم کی تھیں۔ امارتِ اسلامیہ اسلامی نظام اور شریعت کے نفاذ کی علمبردار ہے، وہ عالمی مالیاتی اداروں کے سودی قرضوں کے بوجھ تلے بھی دبے ہوئے نہیں ہیں، وہ قناعت سے بھی کام لے سکتے ہیں اور اپنی چادر کے مطابق پائوں پھیلانے کا شعار بھی اختیار کرسکتے ہیں اور وہ عزیمت کی راہ اختیار کرکے دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کرسکتے ہیں۔