عافیہ رہائی- قیدیوں کا تبادلہ

644

کوآرڈینیٹر عافیہ موومنٹ

کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ وکیل ڈاکٹر عافیہ
کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ وکیل ڈاکٹر عافیہ

یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے بدنام زمانہ ہیپاٹائٹس بی کی ایک جعلی مہم چلا کر اسامہ بن لادن کو قتل کرنے میں امریکا کی مدد کی، اس مہم کے دوران اس نے بن لادن کے بچوں کے خون کے نمونے حاصل کیے جس سے یہ ثابت ہوا کہ القاعدہ رہنما کہاں چھپا ہوا ہے۔ جس کے بدلے میں امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان ڈاکٹر آفریدی کو رہا کر دے، وہ امریکا کے نزدیک ہیرو کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔
عزیز چودھری ڈپلومیٹک فوٹ پرنٹس (Diplomatic Footprints) میں بتاتے ہیں کہ 2015ء میں کس طرح صدر بارک اوباما نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ جب کہ بعد میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ بھی اٹھایا گیا تھا۔ ہر فریق کے لیے دوسرا بہت اہم تھا۔ میں نے حال ہی میں واشنگٹن میں کانگریس کے نمائندے بریڈ شرمین (ڈی-کیلی فورنیا) کے عملے سے ملاقات کی، جنہوں نے دوبارہ (قیدیوں کے) تبادلے کی تجویز پیش کی ہے۔ درحقیقت، جب یہ واضح ہو گیا کہ ڈاکٹر آفریدی کو خیبر پختون خوا میں ایک اور مقدمے کا سامنا ہے، جس میں اسے ممکنہ طور پر سزائے موت ہو سکتی ہے تو امریکی تشویش مزید بڑھ گئی۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس معاملے کو دوبارہ دیکھا جائے، لیکن میری تشویش یہ ہے کہ پاکستانی حکام (ایک مرتبہ پھر) ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی پر اصرار کیے بغیر امریکا کو وہی کچھ دینے جا رہے ہیں جو کہ وہ چاہتا ہے، (یعنی پاکستانی حکام) ریمنڈ ڈیوس والی غلطی کو دہرانے والے ہیں۔ پھر امریکا نے موقف اختیار کیا ہے کہ معاملات بہت مختلف ہیں۔ درحقیقت معاملات مختلف ضرور تھے لیکن اس طرح نہیں جیسا امریکا کہتا ہے۔ ریمنڈڈیوس نے تین پاکستانی شہریوں کو لاہور کی سڑکوں پر قتل کر دیا تھا۔ جبکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے کسی کو قتل نہیںکیا، بلکہ اسے ہی غزنی، افغانستان میں ایک امریکی فوجی کے پستول سے پیٹ میں کم از کم دو گولیاں ماری گئیں۔ اس کے باوجود اس وقت کی پاکستانی حکومت نے پسپائی اختیارکرلی۔ مجھے یقین ہے کہ زیادہ تر پاکستانی شہریوں نے اسے (حکومت کی) کمزوری تسلیم کیا۔
میں مذاکرات میں پاکستان کا ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے کام کر رہا ہوں۔ میں حال ہی میں افغانستان گیا تھا جہاں میں نے کئی گواہوں کا سراغ لگایا جنہوں نے غزنی میں ہونے والے واقعات کے بارے میں عافیہ کے موقف کی تصدیق کی کہ اس نے کسی کو گولی مارنے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ ایک خوف زدہ امریکی فوجی نے اسے گولی ماری تھی۔ اسی دوران امریکا نے بگرام ائر فورس بیس میں عافیہ صدیقی کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے معصوم بچوں کے ساتھ بے پناہ زیادتی کی گئی۔ ایک بیٹا سلیمان، جس کی عمر چھے ماہ تھی، کو بظاہر اغوا کے دوران گرا کر قتل کر دیا گیا تھا۔ باقی دو بچوں کو افغانستان لے جایا گیا جہاں ایک (بیٹی مریم) کو زبردستی ایک امریکی عیسائی خاندان کو گود دے دیا گیا اور دوسرے (بیٹے احمد) جس کی عمر اس وقت صرف چھے سال تھی، کو افغان جیل میں ڈال دیا گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ عافیہ صدیقی کے کیس پر نظرثانی کی جائے۔
مجھے لوگوں کو پریشانی میں ڈالنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن اس طرح معاملہ آگے بڑھے گا: اگر امریکا نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ڈاکٹر آفریدی کے تبادلے میں دینے کی معقول درخواست پر عمل نہیں کیا تو میں اپنی تحقیقات جاری رکھنے پر مجبور ہو جاؤں گا تاکہ اس بات کو بے نقاب کیا جا سکے کہ امریکا نے اپنے بچوں (احمد اور مریم امریکا میں پیدا ہوئے ہیں) کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ اگر وہ رہا ہو جاتی ہے تو پھر مجھے ایسا نہیں کرنا پڑے گا (جس سے مجھے بہت خوشی ہوگی، کیونکہ پھر میں دوسرے معاملات پر توجہ مبذول کر سکتا ہوں)۔ اس دوران کسی کو (میری ان کوششوں) کے لیے (عافیہ کی فیملی) کو مورد الزام نہیں ٹھیرانا چاہیے۔ کیونکہ میں اس (عافیہ) کا وکیل ہوں اور فیصلے اس کا خاندان نہیں بلکہ میں کرتا ہوں۔ یہ میرا فرض ہے کہ میں وہ کروں جو میرے مؤکل کے بہترین مفاد میں ہو۔میں اس وقت واشنگٹن ڈی سی میں ہوں۔ میں نے پچھلے کچھ دن ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ہمراہ فورٹ ورتھ، ٹیکساس میں گزارے ہیں۔ وہاں رہتے ہوئے جب میں نے محسوس کیا کہ آخرکار وہ وقت آ گیا ہے کہ مجھے اس خوفناک حقیقت کا انکشاف کردینا چاہیے کہ عافیہ صدیقی کی عصمت دری نہ صرف بگرام میں ہوئی، بلکہ اس جیل ایف ایم سی کارسویل میں بھی ہوئی ہے جہاں وہ اب قید ہے۔ میں نے یہ کام امریکی حکومت کی جانب سے بے عملی کی وجہ سے کیا ہے جب معاملہ فوری حل کرنے کا ہو، مقصد اسے (عافیہ) کو کسی دوسری جیل میں منتقل کرنا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ میں نے (عافیہ کے) مجرموں کے نام جاری نہیں کیے۔
جب (جیل میں ملاقات کے دوران) میں نے اس سے کہا کہ اب مجھے یہاں سے جانا ہے، تو یہ بات قابل فہم ہے کہ وہ مدد کے لیے کیوں چیخنے لگی، رونے لگی کہ وہ عصمت دری کرنے والوں سے گھری ہوئی اپنی جیل کی کوٹھری کے جہنم میں واپس جانا نہیں چاہتی تھی۔ اس کام (وکالت) کے 39 سال میں، میں امریکی جیل کے خوفناک نظام میں واپس چھوڑ کر جانے سے اپنے ایک مؤکل کے اتنا زیادہ خوفزدہ ہو جانے پر زیادہ حیرت زدہ نہیں ہوا۔ تو آئیے ہم قیدیوں کا تبادلہ کریں۔ لیکن، 7 دسمبر کو، نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مبہم انداز میں کہا کہ حکومت امریکیوں کے ساتھ اس (عافیہ) کی حالت زار کا معاملہ کیسے اٹھائے گی۔ انتہائی احترام کے ساتھ، پاکستان 231 ملین آبادی کا جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم ملک ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات میں مکمل طور پر بے قصور ہیں اگر بالفرض وہ ہزار جرائم کی مرتکب بھی ہوئی ہوتیں تو بھی انہیں کافی سزا مل چکی ہے۔ ڈاکٹر آفریدی کو امریکا لانا صدر جو بائیڈن کے لیے قابل ذکر بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ وہ اس وقت وائٹ ہاؤس میں تھے جب بن لادن کی موت کی خبر آئی تھی۔ اس بات کے واقعاتی شواہد موجود ہیں کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے کام جاری ہے۔ نومبر کے وسط میں، پشاور ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے اہل خانہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا جائے، یعنی اگر شکیل آفریدی امریکا جاتا ہے تو اسے اپنے اہلخانہ کو ساتھ لے جانے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ لیکن کیا اپنے واشنگٹن کے دورے میں آرمی چیف عاصم منیر عافیہ صدیقی کے بجائے ہتھیاروں کی ڈیل کا سوچ رہے ہیں؟ پاکستان ایک مرتبہ پھر ہتھیار ڈالنے کا نہ سوچے۔ یقینا یہ ملک یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ ایک کمزور، تنہا اور صدمے سے دوچار عورت کو کراچی واپس لے آئے؟ (مصنف ایک اینگلو-امریکن انسانی حقوق کے وکیل ہیں، جنہوں نے عافیہ صدیقی کی رہائی کا بیڑہ اٹھایا ہے۔)