’’بے سبق سانحہ‘‘

565

سانحہ 16 دسمبر کو نہیں، اس سے بہت پہلے، اس دن ہو گیا تھا جس دن ملک کے پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں ملنے والے اکثریتی مینڈیٹ کو بندوق کے زور پر رسوا کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جس دن ایک شرابی کبابی اور اس کے بندوق بردار ساتھی جرنیلوں نے عوام کے فیصلے کو ٹینکوں تلے روندنے اور توپوں سے اُڑانے کا فیصلہ کیا تھا۔ بدقسمتی سے جس دن جمہوریت کے ایک چمپئن نے ’’اُدھر تم اور اِدھر ہم‘‘ کا نعرہ لگایا اور مغربی پاکستان کے منتخب ارکان کو قومی اسمبلی کے ڈھاکہ کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی تھی۔ اس سانحے کا بیج تو 1948 ہی میں بو دیا گیا تھا۔ سانحہ ہوتے ہوتے ربع صدی لگ گئی! اس سانحے کی اصل وجہ تو اس مقصد سے روگردانی تھی جو اس صدی کے منفرد تشخص کے حامل ملک پاکستان کی نظریاتی اساس ہے۔ اس ملک کے قیام کے مقصد کا اظہار ان الفاظ میں کیا جاتا تھا: پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ۔دو حصوں میں منقسم لوگوں نے ایک دوسرے سے ہزار میل کے جغرافیائی فاصلے، زبان اور کلچر کے فرق کے باوجود ایک ملک بن کر رہنے کا فیصلہ صرف اور صرف اسلامی ریاست کے نظریے کی وجہ سے کیا تھا۔

دسمبر سانحے کے بہت سارے اسباق ہیں۔ اس کا سب سے بڑا سبق تو یہ ہے کہ امت کے منہ پر ذلت و رسوائی کی کالک ملنے والوں، سیاست دانوں، عوامی نمائندوں، قاضیوں اور عوام میں سے کسی نے بھی اس ذلت آمیز سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ مزید بدقسمتی یہ کہ کارواں کے دل سے احساس زیاں بھی رخصت ہوگیا۔ اس کا دوسرا سبق یہ ہے کہ ذمے داران کا احتساب ہونا چاہیے تھا، جو نہیں ہوا۔ بلکہ اس سانحے کے ذمے داران نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے ملک و قوم کی تقدیر سے کھیلتے رہے۔ تیسرا سبق یہ ہے کہ ہتھیار پھینکنے والوں سے ہمدردی کے بجائے ان کو عبرت کا نشان بنایا جانا چاہیے تھا۔ جبکہ ذلتوں کے نشان، عزت واحترام اور سلامیوں کے حقدار ٹھیرے! تیسرا سبق یہ ہے کہ جو نظریہ ہمارے وجود کی بنیاد ہے اسے زندہ کیا جائے ورنہ باقی ملک بھی خدا نخواستہ کسی حادثے کا شکار نہ ہوجائے۔ طاقت، حقارت اور تکبر قومیتوں کے جڑے رہنے کی ضمانت نہیں۔ یہ اتحاد و اتفاق کے لیے زہر قاتل ہے۔ یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ طاقت کے زور پر کسی کو ساتھ نہیں رکھا جاسکتا!

مشترکہ نظریہ، عدل وانصاف، ایک دوسرے کے حقوق و جذبات کا خیال اور کلچر کا احترام تعلق کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے۔ بندوق نفرتوں کو بڑھاتی اور بارود محبتوں کو آگ لگاتا ہے۔ اپنوں کے خلاف میدان میں آنے والے ٹینک مواخات کے نازک تعلق کو کچلتے ہیں۔ ٹینک، توپیں، میزائیل، بندوقیں جغرافیائی سرحدوں کے پار دشمنوں سے حفاظت کے لیے ہونے چاہئیں، ناراض اپنوں کے سر اُڑانے اور جسموں کو قیمہ کرنے کے لیے نہیں!

دسمبر 16 سانحے کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ اپنے لوگوں کو دشمن کا آلہ کار بننے پر مجبور نہ کرو! آج کے حالات میں بندوق برداروں کو یاد رکھنا ہوگا کہ بندوق بندوق سے لڑ سکتی ہے، بپھرے ہوئے نہتے عوام سے نہیں! کامیاب جنگ وہ ہے جو دشمن کی سرزمین پر لڑی جائے۔ بندوق کبھی گھر کے اندر کی جنگ نہیں جیت سکتی! اس عظیم سانحے میں ایک سبق محب وطن لوگوں کے لیے بھی ہے۔ وہ یہ کہ جب بندوق بردار اپنے لوگوں کے خلاف بندوقیں اٹھا لیں تو ان کا ساتھ دینا درست نہیں ہوتا۔ مسلح کارروائی صرف با اختیار دفاعی ادارے کا کام ہے۔ یہ کسی بھی صورت کسی گروہ کسی، جتھے یا کسی سیاسی پارٹی یا جماعت کا کام نہیں ہے۔ وطن کی محبت فطری امر ہے۔ وطن کی سلامتی پر آنچ آئے تو کوئی محب وطن خاموش یا لاتعلق نہیں رہ سکتا لیکن جذبات کے ساتھ ساتھ ہر ادارے، جماعت اور ہر شخص کا اپنے حدود اور اختیار کے اندر رہنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

آئندہ ایسے سانحات سے بچنے کے لیے اس سانحے کے اسباب کا بے لاگ تجزیہ ہونا چاہیے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ کرے گا کون؟ تیسرے نمبر پر ملک کا کرپٹ ترین ادارہ، عدلیہ؟ مال و زر کی ہوس کا شکار کرپشن کے کیچڑ میں لتھڑے موروثی سیاستدان؟ شخصیت پرست، نسل، زبان، علاقائیت اور فرقہ واریت کے قیدی عوام؟ اگر سبق نہیں سیکھا جاتا تو ’’بے سبق سانحے‘‘ کے طور یہ واقعہ ہماری تاریخ کا حصہ تو رہے گا ہی۔