اسلام آباد:سپریم کورٹ نے 8 فروری کے عام انتخابات میں تاخیر کے تمام دروازے بند کر دیے،عدالت عظمیٰ نے پہلے بھی فیصلہ سنایا تھا کہ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد حد بندی پر اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا۔
قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کوئٹہ میں دو صوبائی حلقوں کی حد بندیوں کے خلاف اپیل کی سماعت کرتے ہوئے فیصلہ سنایا۔
بنچ نے بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
بی ایچ سی نے شیرانی اور ژوب کی دو صوبائی نشستوں کی حد بندی کو تبدیل کر دیا تھا جو پولز اوور سیر سے بنی تھیں۔ ای سی پی نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
سماعت کے موقع پر جسٹس من اللہ نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹس ان حقوق کو کیسے استعمال کرسکتی ہیں جو قانون کے تحت ای سی پی کو حاصل ہیں۔
جسٹس شاہ نے کہا کہ عدالت کو معاملے سے متعلق لکیر کھینچنی ہوگی۔
قائم مقام چیف جسٹس یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ ہر کوئی الیکشن میں تاخیر کا مطالبہ کیوں کر رہا ہے اور انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا۔
جسٹس مسعود نے ریمارکس دیے کہ انتخابی پروگرام کے اجرا کے بعد حلقہ بندیوں سے متعلق تمام قانونی چارہ جوئی غیر موثر ہو گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی فرد کو ریلیف دینے کے لیے پورے انتخابی عمل کو متاثر نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس من اللہ نے کہا کہ الیکشن شیڈول جاری ہونے پر سب کچھ رک جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شفاف انتخابات کا انعقاد ای سی پی کا سب سے بڑا امتحان ہے۔
یہ حکم ای سی پی کی جانب سے عام انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کے دو دن بعد آیا ہے، جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ انتخابات 8 فروری کو ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ملک بھر میں بیوروکریسی سے ریٹرننگ افسران کی تقرری کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے حکم کو معطل کرنے کے بعد یہ حکم جاری کیا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا۔
کیس کی کارروائی ٹی وی اور سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر لائیو ٹیلی کاسٹ کی گئی۔ بنچ کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے تھے اور اس میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔