’’سقوطِ ڈھاکا درس عبرت‘‘

642

16 دسمبر اسلامی تاریخ کا وہ المناک اور عبرتناک دن ہے کہ جب اسلامی نظریے پر بننے والی دوسری ریاست دولخت کردی گئی۔ سقوط دھاکا کی یادیں آج بھی ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں کیا اس سانحے سے پاکستانی قوم اور ارباب حل و عقد نے درس عبرت لیا ہے؟ ہرگز نہیں۔ حالاں کہ تاریخ ماضی کا آئینہ ہے جس میں نظر آنے والی ٹیڑھی و ترچھی تصاویر آئینے کا قصور نہیں بلکہ یہ سب کچھ ایک حقیقت کی طرح دیکھیں۔ جائیں تو مستقبل کی راہوں پر بہتر انداز میں گامزن رہا جاسکتا ہے مگر افسوس ہم نے اس حادثے کو تاریخ کے ان ہی واقعات کی طرح فراموش کردیا ہے کہ جو سقوط بغداد، سقوط غرناطہ اور 1857ء میں مغلوں کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کی بدولت رونما ہوئے تھے۔ تاتاریوں کے بڑھتے ہوئے طوفان کے نتیجے میں بغداد تباہی کا شکار ہوا۔ حالانکہ جلال الدین خوارزم شاہ نے تاتاریوں کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے کی نہ صرف ہر ممکن کوشش کی بلکہ بغداد کے مقتدر حلقوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ اگر وہ نہ اٹھے تو مٹادیے جائیں گے۔ جس کے جواب میں بغداد میں موجود تاتاتریوں کے ایجنٹوں نے خلیفہ کو ایسا سبق پڑھایا جس کے ذریعے جلال الدین کو گرفتار کرکے تاتاریوں کے حوالے کرنے کی سازش تیار ہوئی۔ چنگیز خان اور ہلاکو خان کی یہ آرزو کبھی پوری نہ ہوسکی کہ وہ جلال الدین خوارزم شاہ کو زندہ گرفتار کریں۔ ہاں مگر طاقت کے نشے میں چور تاتاریوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور قتل عام کا وہ بازار گرم کیا کہ دریائے فرأت بہتے ہوئے لہو کی وجہ سے سرخ ہوگیا۔

تو دوسری جانب اسپین کے شمال سے اُٹھنے والا نصرانی طوفان طارق اور موسیٰ کی فتوحات کو تاریخ کا حصہ بنا گیا۔ 1492ء میں غرناطہ سے ابوعبداللہ کی بے دخلی نے اسپین سے مسلمان اور اسلام کو مٹا کر رکھ دیا۔ اس موقع پر جب ابوعبداللہ اپنے خاندان کے ساتھ مراکش کی طرف ہجرت کی غرض سے جارہا تھا تو اس نے نشیب کی طرف اترنے سے قبل ایک بار پھر پلٹ کر الحمرا کے محلات کو دیکھا اور اس موقع پر اس کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ اس موقع پر اس کی ماں نے وہ تاریخی جملہ کہا کہ ’’جب اس علاقے کا مردوں کی طرح دفاع نہ کرسکے تو آج عورتوں کی طرح آنسو کیوں بہاتے ہو‘‘۔

تیسری طرف 1857ء میں جنرل بخت خان کی زیر قیادت حریت پسندوں کی فتوحات نے انگریزوں کو پسپائی پر مجبور کردیا۔ مگر قلعہ معلی کی سازشوں نے ایک طرف تمام شہزادوں کے سرتن سے جدا کرادیے تو دوسری طرف بوڑھے بادشاہ کو جلاوطنی پر مجبور کردیا گیا اور تیسری طرف حاکم کو محکومی کے طوق کو پہننے پر مجبور کیا گیا۔

1857ء کے بعد مسلمان عتاب کا نشانہ بنے، قتل عام ہوا تھا، پھانسیاں دی گئیں اور بعدازاں اردو ہندی تنازع نے جنم لیا۔ پہلے پہل ہندو مسلم اتحاد کے ذریعے آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی مگر بہت جلد مسلمانوں کو احساس ہوگیا کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کو ہندوئوں کی غلامی میں شودروں کی طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ جینا ہوگا۔ نہرو رپورٹ نے ہندوئوں کے عزائم آشکار کیے تو قائداعظم کے چودہ نکات سامنے آئے اور پھر علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد نے تحریک آزادی کی منزل متعین کردی۔ یوں چودہ اگست 1947ء کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت وجود میں آئی۔

اگر ہم المیہ سقوط ڈھاکا پر غور کریں تو یہ ایک طرف فوجی شکست اور سیاسی عمل کی ناکامی ہے تو دوسری طرف قومی سطح پر بااثر سیاسی قوتوں کی خواہش اور بین الاقوامی سیاسی بازی گروں کی سازش۔ یہ تہذیبی، لسانی اور جغرافیائی فرق کا ایک اظہار بھی تھا تو معاشی استحصال، عدم مساوات اور سماجی سطح پر اختیار کردہ غیر معقول رویوں کا ردعمل بھی اور درحقیقت یہ اس منظم شاطرانہ ذہنیت، بددیانتی اور اقتدار پر تسلط کی حریصانہ خواہش کا منطقی انجام تھا جو مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہوس اقتدار کے پجاریوں نے تقریباً پچیس برس تک برقرار رکھیں۔ یہ محض تصویر کا ایک رخ ہے ان مصائب کے دور میں ایسے بنگالی بھی تھے جو پاکستان کے حامی اور وہ بہاری بھی جو غیر بنگالی کہلاتے تھے۔ فوج تو قیدی بنا کر ہندوستان لے جائی گئی مگر ان دونوں گروہوں کے ساتھ سفاکانہ دہشت و درندگی کا بازار گرم کیا گیا جو تاریخ کا ایک رستا ہوا زخم ہے۔ جن بنگالیوں نے الشمس اور البدر کے جھنڈے تلے مکتی باہنی کا مقابلہ کیا انہیں اس کی قیمت آج بھی ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ منتقم مزاج مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے محب وطن پاکستانی بنگالیوں کو چن چن کر پابند سلاسل کیا ان پر غداری کے مقدمے چلائے گئے اور کئی ایک کو دار پر لٹکادیا گیا۔ یہی نہیں بزرگ سیاستدان پروفیسر غلام اعظم کو بھی تادم مرگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کیا گیا۔ اور جب وہ داعی اجل کو لبیک کہہ کر موت کی وادیوں میں جا سوئے تو بنگلادیشی حکومت نے یہ طنزیہ جملہ بھی کہا اس پاکستانی وفادار کی میت کو پاکستان لے جا کر دفن کرو۔ جبکہ بہاری تو آج بھی ڈھاکا کے کیمپوں میں پاکستان سے حب الوطنی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ رہی فوج کی بات تو شملہ معاہدے کی بھارت نواز شرائط کے تحت رہائی عمل میں آئی۔

ہندوستان نے 1974ء میں ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ایک اور پیغام دیا۔ اس تمام معاملے کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ سامنے آیا کہ ہندوستان میں رہ جانے والے کروڑوں مسلمان خود کو بے یارومددگار سمجھنے لگے۔ اندرا گاندھی کی لگائی ہوئی ایمرجنسی میں مسلمان ہی نشانہ بنے۔ اس دوران مسلم کش فسادات کا سلسلہ زور پکڑتا گیا، کبھی میرٹھ تو کبھی مراد آباد میں فسادات کے ذریعے مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا جاتا رہا۔ ہندوستان نے اپنی جغرافیائی حدود میں اضافے کے لیے سیاچن کی برف پوش پہاڑیوں تک فوجی پیش قدمی کی۔ 1987ء تک پاک بھارت جنگ حقیقت کا روپ دھار چکی تھی کہ ضیا الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی نے اسے ٹال دیا۔ 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کا انہدام اور پھر مسلمانوں کا قتل عام، سقوط ڈھاکا کی بنیاد پر ہندوستانی مسلمانوں کا عدم تحفظ کا شاخسانہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اکیسویں صدی میں بھارتی جارحیت ایک بار پھر سر چڑھ کر سامنے آئی مگر پاکستان کی ایٹمی قوت اور بہترین میزائل ٹیکنالوجی نے اسے روکے رکھا مگر گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہو کر رہا۔

11 ستمبر 2001ء کے واقعات نے امریکا کو اسلامی انتہا پسندوں پر حملے کے بہانے مسلم قوتوں کو کچلنے کا موقع فراہم کردیا حالانکہ اس سے قبل 1994-95 میں بوسنیا ہرزیگوینا کے مسلمان بے بسی اور بے کسی کے ساتھ قتل کیے جاتے رہے۔ سربیا کی فوج کو اسلحے کی ترسیل اور مسلمانوں کے قتل عام کی کھلی چھوٹ دے دی گئی جبکہ بوسنیا کے لیے اسلحہ کی ترسیل پر پابندی عائد رہی۔ اقوام متحدہ نے بعض علاقوں کو محفوظ علاقے قرار دیا اور پھر جب سربرنیکا میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے سامنے بوسنیائی مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو مسلمان ممالک تڑپ اٹھے۔ OIC کے اجلاس میں متفقہ طور پر بوسنیا کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل پر پابندی کو اٹھانے کے لیے الٹی میٹم دیا گیا جس کے نتیجے میں یہ پابندی ختم ہوئی اور بوسنیا میں جاری آگ اور خون کی ہولی کا خاتمہ ہوسکا۔

2001ء میں پہلے افغانستان کی تباہی مقدر بنی تو پھر سوڈان کو بھی کچوکے لگائے گئے۔ وہاں کے عیسائیوں کی خواہش پر ریفرنڈم ہوا اور سوڈان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ اہل فلسطین پر ظلم ڈھانے کے لیے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے دی گئی اور یہ سلسلہ ہمیشہ کی طرح آج بھی جاری ہے۔ اکتوبر 2023ء کے اوائل میں فلسطینیوں نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اسرائیل پر نہ صرف راکٹ برسائے بلکہ زمینی حملہ بھی کیا جس کے جواب میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری نے غزہ کو کھنڈر بنادیا۔ تمام جنگی اصول بالائے طاق رکھ کر اسپتالوں، اسکولوں اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بالخصوص عورتوں اور بچوں کا زیادہ جانی نقصان ہوا اب تک اٹھارہ ہزار فلسطینی جام شہادت نوش کرچکے جبکہ 49 ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ اس جنگ میں فلسطینی اسرائیل کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوئے ہیں حالانکہ اسرائیل کو امریکا، یورپ اور ہندوستان کی مدد حاصل تھی۔ دوسری طرف اسلامی ممالک محض مذمتی قراردادوں اور بیانات پر اکتفا کے لیے ہوئے ہیں اور پھر عراق پر بھی فوج کشی کی گئی۔ اقوام متحدہ، اسلامی کانفرنس تماشائی بنے کھڑے رہے۔ حالت یہ ہے کہ اکتوبر 2004ء میں تھائی لینڈ کے مسلمانوں کو محض احتجاج کرنے کے جرم میں ٹرکوں میں اس طرح ٹھونسا گیا کہ تقریباً 100 افراد دم توڑ گئے۔ ایران کے سوا کسی ملک کو اس معاملے میں مذمت تک کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور ایران بھی اس جرأت کی پاداش میں عالمی دبائو کا شکار ہوا۔ اسلامی ممالک خاموش اور خوفزدہ ہیں، سقوط ڈھاکا محض پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کا نام نہیں تھا۔ عالمی منظرنامے پر سب سے بڑی اسلامی ریاست کی حیثیت سے مظلوم مسلمانوں کی آواز اور محکوم مسلمانوں کے لیے راحت پانے کی ایک علامت ضرور تھا۔ آج کا مسلمان اس سیاسی اور عالمی منظرنامے کا جائزہ لے جس کے محدود اشارے اس مضمون میں موجود ہیں اور اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرے۔