سیاسی فش اسٹار

585

عام انتخابات کی آمدآمد ہے گویا وطن ِ عزیز میں سیاسی بہار کا موسم شروع ہوچکا ہے لیکن سیاست دانوں کے بیانات نے قوم کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ فش اسٹار کی طرح ان کے کتنے منہ ہیں؟ کتنے دماغ ہیں؟ کیونکہ ایک طویل عرصہ کی تحقیق کے بعد سائنسدان صرف یہ معلوم کر سکے ہیں یہ فش اسٹار کا منہ ہوتا ہے اور اب وہ یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ اس کا دماغ بھی ہوتا ہے یا بغیر دماغ ہی کے زندگی گزار رہی ہے؟
پیپلزپارٹی کے معروف رہنماء شرجیل میمن نے دعویٰ کیا ہے کہ پیپلز پارٹی پورے مْلک میں کلین سوئپ کرے گی۔ موصوف نے مسلم لیگ ن کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ سندھ کے بارے میں سوچنا چھوڑ دے اور پنجاب کی فِکر کرے کیونکہ اس بار ہماری ساری توجہ پنجاب کی طرف ہے۔ بلوچستان اور سندھ پیپلز پارٹی کی وراثت ہیں اگر شرجیل میمن کی بات مان لی جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وراثت نسل در نسل چلتی ہے اور یہ حقیقت بھی ناقابل ِ تردید ہے کہ کاٹھ کی ہنڈیا بار بار چولہے پر نہیں چڑھتی البتہ کھوٹا سِکہ اتفاقاً چل جاتا ہے اور ہمارے ہاں کھوٹے سِکوں کی کوئی کمی نہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا قائداعظم نے کہا تھا کہ اْن کی جیب کھوٹے سِکوں سے بھری ہوئی ہے المیہ یہی ہیکہ اْن کے کھوٹے سِکے رائج الوقت سِکے کی طرح چل رہے ہیں۔ شرجیل میمن کے بیان سے لگتا ہے کہ وہ خیبر پختون خوا کا نام بھول گئے ہیں اس کے بغیر تو مْلک ادھورا ہے۔
سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ وہ میاں نواز شریف کو وزیرِ اعظم بننے نہیں دیں گے گویا موصوف میاں نواز شریف کے وزیرِ اعظم بننے کے امکان کو ممکنات کے دائرے میں لے آئے ہیں اْن کے فرزند ِ ارجمند بلاول زرداری کہتے ہیں کہ اگلی باری ہماری ہے باالفاظِ دیگر وہ کہنا چاہتے ہیں کہ عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت آئے گی۔ سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور بلاول زرداری نے مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہونے سے قبل ہی سلیکٹڈ حکومت کہنے کا آغاز کر دیا ہے۔ اگر یہ لوگ فراغ دِلی سے سوچیں تو اْنہیں یہ احساس ہوگا کہ مقتدر قوتّوں نے میاں نواز شریف کے ساتھ جو نارواسلوک کیا تھا اْسے حسن ِ سلوک بنانا چاہتے ہیں اِس تناظر میں پیپلز پارٹی کو یہ توقع رکھنا چاہیے کہ جسے وہ عدالتی قتل قرار دیتے ہیں اْس پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔
بلاول زرداری میاں نوازشریف کو متوقع وزیر ِ اعظم قرار دے رہے ہیں اور اْن کے والد ِ محترم سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری میاں نواز شریف کو نامزد وزیر ِ اعظم قرار دے رہے ہیں۔ گویا عام انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ ن کی حکومت متوقع بھی ہے اور نامزد بھی ہے۔ نامزد حکومتیں تو آتی رہی ہیں مگر یہ پہلی حکومت ہوگی جو نامزد بھی ہوگی اور متوقع بھی ہوگی۔ متوقع حکومت سے عوام بہت سی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔ ایسی توقعات جو متوقع حکومت کے لیے بھاری پتھر بن جاتی ہیں۔ المیہ یہی ہے کہ بھاری پتھرکو چوما تو جا سکتا ہے اْٹھایا نہیں جاسکتا کہ اْٹھانے کی کوشش میں اْٹھانے والا اْٹھ جاتا ہے اور اْٹھک بیٹھک کا یہ کھیل اْس وقت تک چلتا رہے گا جب تک وطنِ عزیز میں سیاسی جمعہ بازار لگا رہے گا کیونکہ چند نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی حکومت کا ساتھ دینے کے لیے ایسی شرائط عائد کرتی ہیں جسے تسلیم کرنا حکومت کی مجبوری بن جاتی ہے۔ اس پس ِ منظرمیں الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ چند فی صد ووٹ لینے والی جماعتوں کو سیاسی میدان سے نکال باہر کرے اور کم از کم 30 سے 40 فی صد ووٹ لینے والی جماعتوں کو ہی سیاست کا اہل قرار دے۔ اس تکلیف دہ حقیقت سے انکارکی گنجائش ہی نہیں کہ 6 سے 7 فی صد ووٹ لینے والی جماعتیں بھی کامیا بی کا سہرا سجائے جلوہ افروز ہوتی ہیں اور اْن کی جلوہ گری کا حصول حکومت کی مجبوری بن جاتی ہے۔ جمہوری ممالک میں 50 فی صد ووٹ لینے والی پارٹی کو حکومت بنانے کا حق دیا جاتا ہے۔ تْرکی میں ہونے والے حالیہ انتخابات دوبارہ اس لیے ہوئے تھے کہ کوئی بھی جماعت 50 فی صد ووٹ حاصل نہیں کر سکی تھی مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت 50 فی صد ووٹ نہیں لے سکتی اور یہ سلسلہ اْس وقت تک چلتا رہے گا جب تک سیاسی پارٹیوں کا جمعہ بازار لگا رہے گا۔