اَرضِ فلسطین پر دو ریاستیں کیوں؟

789

تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز نہ ہوا تھا کہ عالمی استعماری قوتوں نے فلسطین کی سرزمن پر اسرائیل قائم کرنے کا تہہ کر لیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جو مسلمانوں کی آزادی کے علمبردار تھے، فلسطین فنڈ قائم کیا۔ 3 دسمبر 1937ء کو پورے ہندوستان میں ’’یوم فلسطین‘‘ منایا گیا کیونکہ برصغیر کے مسلمان ارضِ فلسطین اور بیت المقدس سے گہرا لگاؤ اور عقیدت رکھتے تھے۔ برٹش انڈیا میں جب دو قومی نظریہ نے جڑ پکڑ لی تو 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’قرار دادِ فلسطین‘‘ بھی منظور کی گئی۔ پاکستان 14 اگست 1947ء کو معرضِ وجود میں آگیا۔ 1948ء میں سامراجی قوتوں کی سازش کے تحت اسرائیل قائم کرنے کا اعلان ہوا تو پاکستان کے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے اَرضِ فلسطین پر اسرائیلی ریاست کے قیام کی شدید مخالفت کی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ ’’اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، یہ اْمت کے قلب میں گھسایا گیا خنجر ہے۔ پاکستان اْسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا‘‘۔ یوں قائد اعظم کے یہ الفاظ پاکستان کی’’مستقل فلسطین پالیسی‘‘ بن گئی جسے 75 سال میں کسی فوجی یا سول حکومت نے تبدیل نہیں کیا اس لیے اگر آج کوئی سرزمین ِ فلسطین پر دو ریاستوں (فلسطین اور اسرائیل) کی بات کرتا ہے تو وہ بانی قائداعظم کے وژن سے انحراف کرتا ہے اور انصاف کے مروجہ اْصول کو بھی نظرانداز کرتا ہے۔ مصور پاکستان علامہ اقبال قیام پاکستان سے پہلے انتقال کر گئے مگر اْنہیں نظر آرہا تھا کہ سرزمین فلسطین پر ایک ناجائز ریاست قائم کرنے کے لیے سازش ہو رہی ہے۔ اْنہوں نے ایک خط میں قائد اعظم کو متوجہ کیا کہ ’’فلسطین نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بلکہ عالم اسلام کے لیے بہت عظم ہے۔ اس پر بْری نیت سے پیش رفت ہو رہی ہے۔ فلسطینی عوام کے حقوق غصب کرنے پر جہاں برطانیہ اور اقوام عالم قصور وار ہیں وہاں عرب بادشاہ بھی شریکِ گناہ ہیں۔ عربوں کو چاہیے کہ اْن کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ ان کی حیثیت ایسی نہیں ہے کہ وہ ایمان وضمیر کے مطابق فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرسکیں‘‘۔

7 اکتوبر 2023ء کے طوفان الاقصیٰ کو روکنے کے لیے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے 8 اکتوبر 2023ء کوغزہ پر مکمل جنگ مسلط کرنے کا اعلان کر دیا جس کے بعد غزہ اور فلسطین کے دوسرے علاقوں پر اسرائیلی جنگی جہازوں نے آگ اور بارْود کی بارش کرکے معصوم بچوں اور خواتین کا وہ قتل عام کیا جس کی تاریخ ِ انسانی میں مثال نہیں ملتی۔ غزہ کی کل آبادی 30 لاکھ ہے جس میںسے 24 لاکھ آبادی (80 فی صد) بے سرو سامانی میں دوسرے علاقوں کو ہجرت کر گئی۔ اب تک ساڑے18 ہزار سے زائد فلسطینی شہید جبکہ 50 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ درجنوں صحافیوں، موّرخین، ادیبوں، شاعروں، ماہرین ِ تعلیم اور مصنفین کو شہید کرنے کے لیے اسرائیل نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ شہداء میں بچوں اور خواتین کی تعداد سب سے زیادہ (یعنی 12 ہزار سے زیادہ) ہے۔ اسپتالوں پر براہِ راست بمباری کی جارہی ہے۔ انکیو بیٹر (incubators) میں آکسیجن ختم ہونے پر کئی نومولود بچے شہید ہوگئے۔ تقریباً تمام اسپتال، اسکول، مساجد، مدارس، پناہ گزیں کیمپ اور پبلک مقامات تباہ کر دیے گئے۔ بم برسا برسا کر 80 فی صد مکانات کو ملبہ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ اس سے بھی زیادہ دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ 50ہزار سے زائد حاملہ خواتین صحت کی سہولتوں سے محروم ہو گئیں۔ بموں کی شدت سے کئی خواتین کے حمل ضائع ہو گئے۔ اسپتالوں کے تباہ ہوجانے کے بعد 15 فی صد حاملہ خواتین بے ہوشی (انیستھیزیا) کے بغیر بڑے آپریشن (C-Section) کے ذریعے بچے پیدا کرنے پر مجبور ہیں۔ 7لاکھ خواتین ہائی جین پراڈکٹس سے محروم ہیں۔ اس ساری صورتحال پر دنیا بھر کے عوام اور انسانی و حقوق نسواں کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔

اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کا عزم کیا ہوا ہے جبکہ حماس ایک سیاسی جماعت ہے، جس کو فلسطین کے عوام نے انتخابات میں ووٹوں سے منتخب کیا ہے اور اب یہ میدانِ کارزار میں بھی اسرائیل کا زبردست مقابلہ کر رہی ہے۔ حالیہ غزہ جنگ میں اسرائیل کو 50 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ اسرائیل کی وزارت دفاع نے اعتراف کیا ہے کہ اْس کے 420 فوجی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ 1948ء سے لیکر آج تک اسرائیل کو اتنا جانی اور مالی نقصان نہیں اْٹھانا پڑا جتنا اس دفعہ اْٹھانا پڑا ہے۔ اس کا عسکری اور نفسیاتی رعب ختم ہو چکا ہے۔ امریکا کی واشنگٹن یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ حالیہ جنگ کے دوران اسرائیلی فوجی اور شہری خوف اور اعصابی تناؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔ وہ نہ صرف جنگ سے بے زاری کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ وزیراعظم نیتن یاہو کے استعفے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔ اس جنگ کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ صرف چھے دن جاری رہی جس میں تمام عرب ممالک اسرئیل سے ہار گئے مگر طوفان الاقصیٰ کے بعد حماس گزشتہ 66 دنوں سے اسرائیل کا دیوانہ وار مقابلہ کررہی ہے۔ حماس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023ء سے پہلے کے ذلت آمیز دور میں واپس جانا نہیں چاہتے۔ اقوم متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ غزہ جنگ کا دائرہ لبنان، شام، عراق اور یمن تک پہنچ گیا ہے جبکہ دفاعی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اگر اسرائیل نے جارحیت بند نہ کی تو یہ جنگ ایشیا، یورپ اور امریکا تک پھیل جائے گی۔

امریکا، برطانیہ اور مغربی ممالک نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی ہے۔ امریکی صدر بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے اسرائیل جا کر وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا اور ہر قسم کی سیاسی اور فوجی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’میں بحیثیت ِ یہودی اسرائیل آیا ہوں تاکہ اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر سکوں‘‘۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق برطانیہ کے جہاز غزہ کی جاسوسی میں اسرائیل کو مدد دے رہے ہیں جبکہ غزہ پر امریکی اسلحہ وبارود کے استعمال کے شواہد ملے ہیں۔ علاوہ ازیں امریکا کے بڑے بڑے کاروباری ادارے فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے اسرائیل کو اربوں ڈالر امداد اور خوراک مہیا کررہے ہیں۔ پاکستان سمیت اسلامی ممالک میں اسرائیلی جارحیت پر زبر دست احتجاج کیا گیا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بڑے احتجاجی مظاہرے جماعت اسلامی نے اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں کیے۔ جبکہ امریکا اور یورپ کے بڑے شہروں میں لاکھوں افراد نے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی اور تمام مذاہب کے پیروکاروں نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ اسرائیلی جارحیت پر دنیا بھر کے مظاہروں کے نتیجے میں اسلامی سربراہ کانفرنس (OIC) اور عرب لیگ کا بے نتیجہ اجلاس تو ہو گیا مگر اْس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مایوس کردیا۔ کانفرنس نے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات سے گریز کیا۔ ترکی اگر اسرائیل سے تعلقات منقطع کرتا۔ لیبیا، قطر، آزربائیجان، شام اور عراق کی طرح غزہ کی حفاظت کے لیے اپنی فوجیں غزہ میں اتارتا تو خلافت ِ عثمانیہ کی گمشدہ میراث پاتا۔ آج بھی اگر سعودی عرب، ایران، ترکی، شام، مصر اور اْردن کھل کر فلسطینیوں کا ساتھ دیں تو اسرائیل جارحیت بند کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جنگ بندی کی قرارداد منظور کی مگر سیکورٹی کونسل میں امریکا نے قرارداد کو ویٹو کردیا اور موقف اختیار کیا کہ جنگ بندی کا فائدہ صرف حماس کو پہنچے گا۔

مسلم ممالک اور فلسطینی مسلمان پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور پاکستانی فوج کو اپنا محافظ سمجھتے ہیں۔ پاکستان نے جب 1998ء میں ایٹمی دھماکے کیے تو عالم اسلام میں احساسِ تحفظ پیدا ہوا۔ عرب اور مسلم ممالک کے عوام نے جشن منایا لیکن پاکستان کی موجودہ حکومت اور بڑی سیاسی جماعتوں نے اْمت مسلمہ کو بہت مایوس کیا ہے۔ اَسی کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان کے بارے میں امریکی اور مغربی ممالک کہتے تھے کہ وہ اسلامی بم بنا رہے ہیں مگر آج پیپلزپارٹی خاموش ہے۔ ایٹمی دھماکوں پر نازاں مسلم لیگ ن بھی چْپ ہے۔ دونوں جماعتیں اقتدار کی خاطر امریکی ناراضی مول نہیں لینا چاہتیں۔ فلسطین کے عوام اور قیادت پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ حماس کے سربراہ اور فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ہانیہ نے اشارہ دیا ہے کہ ’’اگر پاکستان اسرائیل کو دھمکی دے تو غزہ پر مسلط جنگ ختم ہو سکتی ہے‘‘ لیکن ہمارے موجودہ حکمرانوں اور بعض سیاستدانوں نے بانی پاکستان قائداعظم کی فلسطین پالیسی سے انحراف کرکے ارضِ فلسطین پر دو ریاستی حل (یعنی اسرائیل اور فلسطین) کی بات کرنا شروع کردی ہے۔ دو ریاستی حل کا واضح مطلب ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کو تسلیم کرنا اور اْس کے نیچے ایک ’’مفلول الحال طفیلی فلسطینی ریاست‘‘ ہے جو کسی بھی صورت فلسطینیوں، اْمت مسلمہ اور پاکستانی عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ اس پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ نامنظور ہے اور نامنظور رہے گا۔