’’یہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے‘‘

903

یہ وردی والے نہیں ہیں۔ یہ تنخوہ دار نہیں ہیں۔ انہوں نے کسی اکیڈمی میں فوجی تربیت نہیں لی ہے۔ ان کے پاس امریکی، فرانسیسی، جرمنی اسلحہ نہیں ہے۔ ان کی وردیوں پر تمغے نہیں سجے ہوئے، ان کے بوٹ ہیں اور نہ ان کے پاس بوٹوں کی دھمک! یہ کسی کینٹ میں رہتے ہیں اور نہ ان کو کہیں سے تنخواہیں ملتی ہیں اور نہ پلاٹ اور مفت، بجلی، گیس، پانی ملتا ہے اور نہ رعایتی نرخوں پر سینما، ریلوے، ہوائی جہاروں کے ٹکٹ اور نہ آٹا، گھی، دال، چینی، بسکٹ! ان کو نہ مفت گاڑیاں ملتی ہیں نہ رعایتی قیمت پر قربانی کے بکرے۔
حماس کے ان شیروں کا دشمن ہمارے پڑوسی دشمن کی طرح بزدل اور کم ظرف ہے۔ ان کا دشمن مکاری، نافرمانی، عہد شکنی، لالچ، زرپرستی، احسان فراموشی، انبیاء دشمنی، انسانیت دشمنی اور درندگی کی ہزارہا سالہ سیاہ تاریخ رکھتا ہے! ان کی تعداد چند سو یا شاید ایک دو ہزار ہوگی، ان کے پاس اسلحے کی تعداد بھی بہت کم ہوگی، ان کے پاس نہ توپیں ہیں نہ ٹینک اور نہ ایف 16، نہ آبدوزیں نہ جنگی بحری جہاز! ان کے پاس حتف ہیں نہ غوری اور نہ ایٹم بم! ان کو یہ بھی پتا ہے کہ دشمن کے پاس وسائل کی کمی ہے نہ اسلحے کی۔ ان کو یہ بھی علم ہے کہ پوری طاغوتی طاقتیں ان کے گھٹیا دشمن کی پشت پر کھڑی ہیں۔
ان شیروں کے معصوم بچے، عورتیں، بزرگ مارے جا رہے ہیں۔ ان کے گھر، اسپتال، اسکول، مساجد، کھیت کچھ بھی محفوظ نہیں۔ ان پر رات دن بم پھینکے جارہے ہیں، آگ برسائی جا رہی ہے۔ ان شیروں کو پتا ہے کہ دنیا تو دور کی بات اپنے آپ کو رسول اللہؐ کی امت کہلانے والے بھی ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ دنیا حیران ہے کہ یہ مٹھی بھر ’’فئہ قلیلیہ‘‘ اتنے بے ڈرکیوں ہیں کہ پوری دنیا سے لڑگئے ہیں؟ اتنے جری اور بہادر کیوں ہیں کہ چھے ملکوں کی افواج کو چند دنوں میں شکست فاش دینے والی، برطانیہ، جرمنی، فرانس، امریکا کی مدد یافتہ فوج کو ناکوں چنے چبوادیے اور ڈیڑھ ماہ سے زیادہ کی شدید خونیں جنگ کے باوجود یہ دشمن کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہورہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ خالد بن ولید اور صلاح الدین کے وارث ہیں۔ یہ سچ مچ میں کسی دنیوی آقا کے غلام نہیں ہیں۔ یہ آئی ایم ایف کے بندے ہیں اور نہ عالمی بینک کے مقروض! ان کو نہ بلجیم میں محلات بنانے ہیں، نہ لندن، دبئی میں فلیٹ، نہ سویٹزر لینڈ میں بینک اکائونٹ کھولنے ہیں نہ آسٹریلیا میں جزیرے خریدنے ہیں۔ ان شیروں کی کچھاریں نہ جاتی امرا ہیں، نہ بلاول ہاوسز اور نہ بنی گالے اور نہ چک شہزاد کے فارم ہاوسز!
یہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے اس لیے کہ یہ اپنی جانوں کو بیت المقدس کی آزادی سے زیادہ عزیز نہیں رکھتے۔ یہ سرفروش پیسے اور مراعات اور تمغوں کے لیے نہیں لڑ رہے۔ یہ جانیں دیتے رہیں گے ہتھیار نہیں ڈالیں گے اس لیے کہ یہ اپنی جانوں کا سودا کرچکے ہیں۔ یہ سودا خریدنے والے نے بتا دیا ہے کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘۔ (التوبہ: 111)
یہ مجاہد ہتھیار نہیں ڈالیں گے ان کا عنوان ’’حماس‘‘ ہے! ان کے ہتھیار کسی آمر کسی جرنیل کے تحفظ کے لیے نہیں، اللہ، اس کے رسولؐ کے دین اور بیت المقدس و مسجد اقصیٰ کی آزادی اور تحفظ کے لیے ہیں۔ حماس کے جانباز اتنے مقدس ہتھیار ربّ کے سرکشوں کے حوالے نہیں کریں گے! حماس کے یہ چند نرالے سرپھرے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ یہ بزدل نہیں ہیں۔ یہ چند روزہ زندگی بچانے کے لیے امت کے لیے ذلت ورسوائی کا سامان نہیں بنیں گے۔ ان کے محلات، ان کے فارم ہائوسز، ان کے جزیرے یورپ، امریکا، دبئی اور آسٹریلیا میں نہیں، جنت میں ان کے منتظر ہیں۔ ان شاء اللہ!