جدہ فلم فیسٹیول، مسئلہ فلسطین، الیکشن

697

ریاض سیزن (ثقافتی اور تفریحی میلہ) دنیا کے سب سے بڑے میوزک فیسٹیول میں سے ایک ہے۔ 2019 میں سعودی عرب کے اس تفریحی اور ثقافتی میلہ کی ابتدا ہوئی۔ سال 2023 میں یہ اس وقت شروع ہوا جب فلسطین اور اسرائیل میں جنگ جاری تھی۔ ریاض کے السویدی پارک میں مختلف ممالک کے ثقافتی ہفتے منعقد ہوئے، پاکستانی ثقافتی ہفتہ کا انعقاد 26 نومبر تا 3 دسمبر تک رہا، پاکستانی، مقامی و دیگر پر مشتمل پر جوش ہجوم ثقافتی شو سے مستفید ہوا۔ دوران ہفتہ، آرٹس، موسیقی، بھنگڑا، ڈانس، رقص، کھانے، ملبوسات سمیت تمام پاکستانی ثقافتی پہلوؤں کو پیش کیا گیا۔ اس ثقافتی ہفتے میں سب سے متاثر کن پروگرام پاکستانی گلوکاروں کا تھا، جب اس طرح کا کوئی گلوکار اپنے مداحوں کے درمیان آتا ہے تو خاص کر خواتین بالکل ایک وجد میں آجاتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان گلوکاروں نے مجمعے کو اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے، اس طریقے سے رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس مردو خواتین نے ڈانس اور رقص پیش کیا، اس کو تو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ بحیثیت پاکستانی معاشرہ، ہماری شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا ہمارے پرائیویٹ کلب اور گھروں میں پارٹیاں، بلکہ کچھ سیاسی پارٹیوں کے جلسوں کی پہچان تو اسی طرح کے ناچ اور گانے ہی ہیں، اگر ان کے ہم نام نہ بھی لیں تو ہمیں معلوم ہے کہ کس طرح کے طبقات ہیں جو اس طرح کی چیزوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

کتنے افسوس کا مقام ہے کہ غزہ پر وحشیانہ بمباری سے ہمارے جیسے گوشت پوست کے انسان ہی موت سے ہمکنار، زخمی اور معذور ہو رہے ہیں اور ہمارے معصوم پھولوں جیسے بچوں کی طرح غزہ کے پھول جیسے معصوموں پر قیامت ڈھانے کا اذیت ناک اور ناقابل برداشت سلسلہ مختصر وقفہ کے بعد دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔ 16 ہزار شہادتیں ہو چکی ہیں تو زخمیوں کا اندازہ کر لیں۔ اگر ہمارے پاس پڑوس میں خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آ جائے تو ہماری خوشی کی تقریبات کا انداز بھی تبدیل ہو جاتا ہے، افسوس، غزہ میں بمباری ہو رہی تھی اور مسلم امہ اور پاکستانی کمیونٹی ایک بڑی تعداد میں گانے بجانے والوں کو داد دینے میں مصروف تھی۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت تکلیف دہ ہے لیکن جو کچھ پاکستانی ثقافتی ہفتے میں کیا گیا وہ تو زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے جلتی پر تیل چھڑک دینے کے مترادف ہی تھا۔

ایک طرف اگر ہم او آئی سی کی اسلامی ممالک اور عرب ممالک کی اسرائیلی مظالم کے حوالے سے بے مقصد کانفرنس کو صرف عوامی دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف مسلم امہ (عوام) کے تفریحی رجحانات بھی قابل مذمت ہیں، کس بات کا امت مسلمہ کا اتحاد اور یکجہتی؟ وہ بھی ایسا ثقافتی ورثہ جو پاکستان کے عام عوام کی نہیں بلکہ ’’پاکستانی الیٹ کلاس‘‘ اور ’’پاکستانی قونصلیٹ‘‘ کی ثقافت ہے۔

نواز شریف نے پاکستان آمد کے فوری بعد مینار پاکستان جلسہ میں فلسطینی پرچم تو لہرا دیا تھا لیکن امریکا اور اسرائیل کی مذمت میں ایک لفظ بھی ان کے منہ سے نہ نکلا تھا، اسی طرح کا معاملہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کا ہے، دونوں کی طرف سے کھل کر نا امریکا کی اسرائیل فلسطین پالیسی کی مخالفت کی گئی ہے اور نہ ہی اسرائیل کی فلسطینیوں کی نسل کشی کی کھلی مذمت۔ اسی طریقے سے ایم کیو ایم بھی اپنے رویے کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ جس انداز سے جماعت اسلامی اس مہم کو لے کر چل رہی ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ امریکا کی اسرائیل کی پشت پناہی اور اسرائیل کے حملوں کی واضح طور سے مذمت کی پاکستان کی کسی بھی سیاسی پارٹی کی نہ جرأت ہے اور نہ ہمت اور نہ کوشش، چاہے وہ امریکی سفارتخانہ اسلام آباد کی طرف ریلی ہو، اسلام آباد، کراچی اور لاہور اور دوسرے شہروں میں خواتین، مردوں، بچوں کی علیحدہ علیحدہ ریلیاں یا موٹر سائیکل ریلیاں یا سراج الحق کی قطر میں حماس کی قیادت سے ملاقات یا الخدمت کی براستہ مصر، غزہ کے لیے فوری امدادی سامان کی فراہمی، طبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فیلڈ اسپتال کا اجازت نامہ اور منصوبہ بندی وغیرہ۔

ماضی میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو سعودی عرب کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ان کے سعودی عرب کے دورے کے اختتام پر دہلی روانگی سے قبل شاہی دربار میں یہ ایوارڈ شاہ سلیمان نے اپنے ہاتھوں سے عطا کیا۔ اسی طرح سے نواز شریف کی ہندوستانی وزیراعظم کی اپنے ادوار میں کچھ خاص ہی مہمان نوازی ہو، یا ہندوستانی وزیراعظم کے دورے کے موقع پرکشمیر کے مسلمانوں پر ہندوستان کے مظالم کے خلاف پرامن احتجاج کی پاداش میں جماعت اسلامی کے بزرگوں اور جوانوں پر شریف برادران کی درندگی اور انسان سوز مظالم، اب یہ سب مسلم لیگ(ن) کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دھبا ہے۔ اسی طرح ماضی میں ہی ایران میں ہندوستانی وزیراعظم کا زبردست استقبال ہوا تھا۔ اسرائیلی وفد کی سعودی عرب میں عالمی ثقافتی ورثے کی کانفرنس میں شرکت کوئی دور کی بات تو نہیں جبکہ اسرائیل کے فلسطینی مسلمانوں پر یکطرفہ مظالم تو برسوں پر محیط ہیں۔ کاش ہمارے مسلمان حکمران آسٹریلیا کرکٹ ہی سے سبق حاصل کر لیتے جب اسی سال جنوری میں کرکٹ آسٹریلیا نے اپنے ایک ٹویٹ (اب X) میں اعلان کیا تھا کہ ’آسٹریلیا کی ٹیم متحدہ عرب امارات میں افغانستان کے خلاف شیڈول سیریز نہیں کھیلے گی‘۔ کرکٹ آسٹریلیا نے سیریز نہ کھیلنے کی وجہ طالبان کے خواتین اور لڑکیوں پر عائد پابندی سے متعلق فیصلہ قرار دیا تھا۔

ابھی ریاض میں پاکستانی ثقافتی ہفتہ کا اختتام نہیں ہوا تھا کہ جدہ میں ’’ریڈ سی انٹرنیشنل فلم فیسٹول‘‘ 30 نومبر تا 9 دسمبر کی ابتدا ہو گئی۔ اب تو آسمان دنیا نے دیکھ بھی لیا کہ کہاں سعودی عرب میں عبایا کے بغیر کسی خاتون کا داخلے کا تصور ہی نہیں تھا اور کہاں ’’کترینہ کیف‘‘ جیسی اداکارہ جن کے متعلق کوئی بات احاطہ تحریر میں لانا بے حیائی کے زمرے سے تو کم نہیں ہوگا، انہوں نے اور کئی اور اداکار اور اداکاروں نے ’’ریڈ سی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول جدہ‘‘ میں اپنے اپنے رواج کے ملبوسات میں شرکت کی۔ ایک پاکستانی فلم’وکھری‘ بھی ان 125 فلموں میں شامل ہے جو دنیا کے کئی ممالک سے لا کر یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔

اس تمام صورتحال میں پاکستان میں جو انتخابات ہونے جا رہے ہیں وہ بہت اہم ترین ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف میں روزانہ کی بنیادوں پر قربت بڑھ رہی ہے۔ نواز شریف اور سعودی حکمران خاندان کی قربت کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں ہے۔ نواز شریف اور ہندوستانی حکمرانوں کی قربت اور اس کو آگے بڑھا لیں تو ان دونوں کی سعودی حکمران خاندان سے روابط اور پھر ان تینوں کی امریکا سے یاری، اب، اتنی کچھ گنجلک بات نہیں۔ پاکستان میں اس تمام صورتحال میں کس کی حکمرانی بالکل صورتحال کے عین مطابق ہو سکتی ہے؟ سیاسی صورتحال کی نقشہ گری ہمارے سامنے ہے۔ گزشتہ دنوں سے جس طرح عمران خان کی میڈیا میں کوریج شروع ہو گئی ہے ایک تاثر دینے کی کوشش ہے کہ پی ٹی آئی اب آزادانہ الیکشن میں حصہ لے گی۔ 9 مارچ کے بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ پی ٹی آئی کی اکثر مختلف سطح کی قیادت لفظوں کی گولہ باری سے ہٹ کر کسی بھی دباؤ کا سامنا کرنے میں اب تک ریت کی دیوار ثابت ہوئی ہے، اور راہ فرار اختیار کی ہے۔

میڈیا اور سوشل میڈیا پر سیاسی گہما گرمی ہے، الیکشن بالکل قریب ہیں، اب جھوٹ کو سچ بتایا جائے گا، جو باتیں بعید از قیاس اور امکانات سے ماورا ہوں گی انہیں بس چند قدم دور بتایا جائے گا۔ غریب کی غربت کو چٹکی بچاتے اور ملکی مسائل کا حل تو ہاتھ کا میل ثابت کیا جائے گا۔ مہنگائی اور آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے اور معاشی بد حالی کے ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہوگی اور ووٹر حیران و پریشان ہوگا کہ کس کو سچا مانے اور کس کو جھوٹا جانے۔ ایسے میں جماعت اسلامی کے کارکنان کو میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کا توڑ کرنا ہے، عوامی جلسے جلوس اپنی جگہ پر لیکن زمینی حقائق کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ مخالف اور جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈے کا کافی وشافی علاج کرنے کے لیے الحمدللہ جماعت کے نوجوان ہر محاذ پر موجود ہیں۔ رب سے لو لگاتے ہوئے اور گلی محلے کی سطح پر خاموش اور چھوٹی چھوٹی کاوشوں سے لوگوں کی ہم نواء سے ان شا اللہ بڑھتے ہوئے قدم اور تیزی سے آگے بڑھیں گے۔ یہ مشکل کام ضرور ہے اور اس میں صلہ کی تمنا بھی نہیں۔ بہتا ہوا پانی اگر ایک دفعہ اپنا راستہ بنا لے تو پھر بڑی بڑی سنگلاخ چٹانیں بھی نہ اس کا راستہ روک پاتی ہیں اور نہ اس کا بہاؤ برداشت کر پاتی ہیں۔مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہاؤ پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے مجاہدین اپنے پنے مورچوں میں ڈٹے ہوئے ہیں، اور ڈٹے ہوئے لوگ لوگ ہی پاکستان کی کشتی کو طوفان اور حوادث سے بچا سکتے ہیں۔