خطاء کا پتلا

665

عزت مآب چیف جسٹس پاکستان فائز عیسیٰ کی جانب سے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دیے گئے ریمارکس قابل ِ تحسین بھی ہیں اور قابل ِ توجہ بھی ہیں اْ ن کے ارشادِ گرامی کے مطابق احتساب سب کا ہونا چاہیے۔ مارشل لا کا جواز فراہم کرنے والے ججوں کی تصاویر کمرۂ عدالت میں آویزاں کی جائیں۔ آئین شکنی کی حمایت کرنے والے صحافیوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔

کمرۂ عدالت میں ججوں کی تصاویر آویزاں کرنا بظاہر بہت معمولی سزا ہے مگر اس کے نتائج بہت دور رس ثابت ہوں گے کیونکہ ان ججوں کی نسلیں اْن کی نسبت پر ندامت محسوس کریں گی۔ مارشل لا کی حمایت کرنے والے ججوں کی تصاویر ہی کیوں؟ ہر قانون شکن اور ہر صاحب ِ اختیار کو کٹہرے میں لانا چاہیے کیونکہ ہمارے آئین کے مطابق اختیار ات سے تجاوز کرنے والے ہر شخص پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوتا ہے۔ متوقع وزیر ِ اعظم میاں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف پر اختیارات سے تجاوز کرنے پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کی حمایت کی تھی وہ مقدمہ ابھی تک چل رہا ہے۔ حالانکہ مارشل لا جنرل مشرف نے نہیں لگایا تھا اْس وقت اْن کا جہاز خلا میں معلق تھا۔ پاکستان میں اْترنے کے تمام راستے بند کردیے گئے تھے۔ یہاں یہ سوال کرنے کی جسارت بھی کی جاسکتی ہے کہ مارشل لا کی حمایت کرنے والے ججوں کی آنے والی نسلوں کو بھی احساسِ ندامت محسوس کرنے کی تجویزدی جارہی ہے مگر قوم کو اذیت میں مبتلا کرنے والے ججوں اور جسٹس کے بارے میں کچھ کہنا تو در کنار سوچنا بھی گوارہ نہیں کیا گیا عدلیہ کو بے توقیر اور رْسوا کرنے میں ججوں اور جسٹس صاحبان کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے جو بغیر ثبوت کے کسی مقدمے کی سماعت کرتے ہیں اور پھر اپیل دراپیل کے ذریعے لوگوں کی جائدار پر قبضہ کرنے والوں کی پشت پناہی کرتے ہیں اس بارے میں ہم نے ایک جج صاحب سے استفسار کیا تو اْنہوں نے بڑا حیرت انگیز جواب دیا اْن کا کہنا تھا کہ کسی بھی مقدمے کی فائل دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ مدعی بدنیت ہے یا مظلوم ہے؟ مگر ہم ایسے مقدمات کی سماعت کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ عدم ثبوت کی بنیاد پر مقدمہ اْس وقت تک خارج نہیں کیا جاسکتا جب تک شہادتیں نہ ہوجائیں اور جہاں تک شہادتوں کا تعلق ہے تو اس معاملے میں وکیل قانونی موشگافیوں سے مقدمے کو طول دیتے رہتے ہیں شہادتوں سے قبل مقدمہ عدم ثبوت کی بنیاد پر مقدمہ خارج کر دیا جائے تو مدعی یا مدعا الیہ سیشن کورٹ چلا جاتا ہے اور وہاں وکیل چند سال تک مختلف حیلے بہانے سے مقدمے کو لٹکائے رکھتا ہے اور پھر مقدمہ واپس سول کورٹ میں آجاتا ہے۔ واجب الاحترام چیف جسٹس کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ وہ قوم کو عدالتی جبر سے نجات دلائیں۔ نسل در نسل چلنے والے مقدمات کا سد ِ باب کریں یہ ایک ایسا کارنامہ ہوگا جو چیف جسٹس کو تاریخ کے ماتھے کا جھومر بنا دے گا کیونکہ موجودہ نظامِ عدل میں کوئی بھی شخص کسی کو بھی دھکے کھانے پر مجبور کردیتا ہے۔ سو، لازم ہے کہ بغیر ثبوت کے کسی بھی مقدمے کا اندراج نہ کیا جائے اپیل در اپیل کے شیطانی چکر سے نجات دلانے کے لیے کوئی ایسا میکنزم تشکیل دیاجائے جو اپیل سے قبل مقدمے پر نظر ِ ثانی کرے اور دیکھے کہ مقدمے کا اخراج قانونی طور پر درست ہے۔

جج صاحباں بھی انسان ہوتے ہیں اور انسان کو خطا کا پْتلا کہا جاتا ہے یہ بھی درست ہے کہ یہ پْتلا کبھی کبھی کٹھ پْتلی بن جاتا ہے۔ وکلا قانونی موشگافیوں سے جج اور جسٹس صاحبان کو نچاتے رہتے ہیں اور عدالتیں مقدمات کے انبار کے تلے دبی سسکتی رہتی ہیں یہ حقیقت بھی ناقابل ِ تردید ہے کہ مقدمات کا یہ بوجھ جج اور جسٹس صاحبان کی نا اہلیت کے باعث ہوتا ہے اور نظامِ عدل اْ ن کی پْشت پناہی کرتا ہے اس سچ سے بھی انکار کی گنجائش ہی نہیں کہ اس معاملے میں عدلیہ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے چلیے! مان لیتے ہیں کہ عدالت کے دروازے پر دستک دینا ہر شہری کا حق ہے مگر کسی شہری کو یہ حق نہیں دینا چاہیے کہ دوسروں کے بنیادی حقوق کو پامال کرے بغیر ثبوت کے مقدمہ کرنا اور عدم ثبوت پر خارج ہونے والے مقدمات کی اپیل کرنا عدالتی مجبوری ہے تو یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ فوجداری اور دیوانی مقدمات کے فیصلے کی مدت کا تعین کردیا جائے۔