ہمارے نگران وزیر خارجہ امریکا میں رہتے ہیں۔ وزارت خارجہ کھیلنے کے لیے وہیں سے آئے ہیں اور کامل یقین ہے کہ وزارت کھیل کر ادھر ہی لوٹ جائیں گے ہمارے ایک صدا بہار وزیرخزانہ حفیظ شیخ اکثر وزارت خزانہ کھیلنے کے لیے امریکا سے پاکستان آتے (جاتے) رہتے ہیں۔ ہمارے سابق گورنر سندھ درجن سے زیادہ برس سندھ کی گورنری کھیلنے کے بعد گورنر ہائوس سے سیدھے ائرپورٹ سے دبئی روانہ ہوگئے اور تادم تحریر اپنے خوابوں کے وطن دبئی میں ہی ’’عیش و عافیت‘‘ کے ساتھ راتیں گزار رہے ہیں۔ ہمارے ایک سابق وزیراعظم (معین قریشی) تو ہمارے آزاد ِخود مختار وطن عزیز میں اقتدار کے کھیل کی تاریخ کا منفرد عجوبہ تھے۔ وہ ایسے درویش صفت تھے کہ وزارت عظمیٰ کھیلنے کے لیے جب پاکستان بھیجے اور لائے گئے تو کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بھی نہیں تھا۔ وہ بھی ان کو فوری طور پر بنوا کر ہدیہ کیا گیا۔ وہ بھی وزارت عظمیٰ کھیل کر ایوان وزیراعظم سے کسی سے ملے بغیر سیدھے امریکا سدھار گئے اور آج تک کبھی واپس نہیں آئے۔ تھرپار کر سے 90 فی صد ووٹ لینے والے تھر کے انتہائی مقبول لیڈر سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی وزارت عظمیٰ کے ساتھ کھیل کر عرصہ پہلے کسی دوسرے دیس جابسے۔
ہمارے حاجی آرمی چیف عہدہ چھوڑنے کے اگلے روز دامن جھاڑ کر بلجیم کی طرف نکل گئے۔ واپسی کا کچھ پتا نہیں۔ ایک اور فوجی سربراہ اور ’’مرد آہن‘‘ تقریبا نو سال تک فوج کی قیادت کی بھاری ذمہ داری، ملک کی حفاظت اور قوم کی ’’شاندار سیاسی خدمات‘‘ کے تمغے سجائے ایسے دبئی ’’تشریف‘‘ لے گئے… کہ پھر ’’جیتے جی‘‘ کبھی واپس نہ آئے۔ ہمارے ایک اور قابل اور محب وطن بہادر جرنیل پچاس ساٹھ ملکوں کی فوج کی قیادت کرنے سعودیہ چلے گئے۔ کوئی جرنیل کہیں آسٹریلیا میں اور کوئی امریکا میں پردیسی ہوگئے۔ ہمارے اکثر جج اور چیف جسٹس ملک سے باہر قیام پزیر ہیں۔ ہمارے اکثر بیورو کریٹ ریٹائرمنٹ کے بعد ملک میں رہنے کے بجائے سیکنڈ کلاس سٹیزن کے طور پر دوسرے ملکوں میں اجنبی ہوجانا پسند کرتے ہیں۔ ہمارے سیاسی جمہوری ہیروز لندن دبئی امریکا میں گھر بناتے ہیں۔
ملک کے تین دفعہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کاروبار، جائدادیں، ’’زندہ ماں‘‘ اور بچے لندن میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی ولی عہد بھائیوں سے دور، ملک میں رہ کر ’’خاندانی تخت‘‘ دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد میں تقریریں سنا اور ’’فلمیں‘‘ دکھانے میں مصروف ہیں۔ بادشاہ سلامت نواز شریف اپنے علاج اور اپنی ذاتی سیاسی پارٹی یعنی ’’نواز لیگ‘‘ کے سیاسی معاملات اور اجتماعات لندن ہی میں رکھتے ہیں۔ زرداری اور اس کی سیاسی جاگیر کا ولی عہد اپنے ’’کھیت‘‘ کی دیکھ بھال اور ’’کم داروں‘‘ کو ضروری ہدایات دینے اکثر پاکستان آتے رہتے ہیں۔ اس خاندان کا اصل مرکز تو دبئی ہے لیکن ’’سکون‘‘ گاہیں شاید کئی ملکوں میں ہیں۔ ’’اسلامی ٹچ والے‘‘ عمران خان کی ’’بڑی بیوی‘‘ اور بچے پاکستان میں نہیں، لندن میں ہی پا لے پوسے جارہے ہیں۔
سیاستدان، فوجی، بیورو کریٹ، وڈیرے، چودھری، سردار، خان سب ’’اصرافیہ اشرافیہ‘‘ کی روزی روٹی تو پاکستان ہی سے وابستہ ہے لیکن ان کا رہن سہن کسی اجنبی ملک میں رہتا ہے۔ کوئی اقامے لے کر تو کوئی دوسرا پاسپورٹ لے کر وطن عزیز سے دور رہنے پر مجبور ہے۔ مجبوری و بے کسی کی حالت ہے کہ صرف اقتدار پاکستان میں ہے باقی ان کا نہ علاج پاکستان میں نہ اولاد اور نہ کاروبار! اس قوم کا بے حس ظرف دیکھیں کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اشرافیہ کے مفادات اس ملک سے وابستہ نہیں، انہی بار بار آزمائے ہوئے سیاستدانوں کی حمایت کرتی ہے اور ستر سال سے ان کے ساتھ ہے۔ بدترین جبر اور نا انصافیوں کا شکار یہ قوم اپنے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کسی حقیقی تبدیلی کے لیے اٹھنے کے لیے ہی تیار نہیں! یہ بھی ایک عجوبہ ہے کہ جمہوریت پسند عوام ملک کی واحد حقیقی جمہوری، نظریاتی، کرپشن سے پاک عوامی جماعت (جماعت اسلامی) کے بجائے ستر سال سے ملک پر مسلط کھرب پتی خاندانوں کی موروثی لمیٹڈ پارٹیوں کا ساتھ دے کر کرپشن، نا انصافی، ظلم اور مہنگائی کا رونا روتی ہے۔