اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کو ایون فیلڈ کیس میں بری کردیا

520

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کو ایون فیلڈ کیس میں بری کردیا۔جب کہ نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل بھی واپس لے لی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن نے سماعت کی۔ 

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے دلائل سننے کے بعد ن لیگ کے قائد نواز شریف کو ایون فیلڈ کیس میں بری کردیا۔عدالت نے احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

دوسری جانب نیب نے نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کے خلاف اپیل بھی واپس لے لی۔جس پر عدالت نے اپیل واپس لینے کی استدعا منظور کرلی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں نوازشریف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی تو نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف پیش کیا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو سیکشن 9 اے سے بری قرار دیا تھا۔

وکیل امجد پرویز نے نیب آرڈیننس کا سیکشن 9 اے 5 پڑھ کر سنایا اور کہاکہ سیکشن9 اے 5 کے تحت استغاثہ کو کچھ حقائق ثابت کرنا ہوتے ہیں۔سیکشن 9 اے 5 کا تقاضا ہے کہ ملزم کو پبلک آفس ہولڈر ثابت کیا جائے، نیب آرڈیننس میں بے نامی دار لفظ کی تعریف کی گئی۔

جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں سزا معطلی بھی اسی بنیاد پر ہوئی، سزا معطلی کے فیصلے میں ہم نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا سہارا لیا، وکیل امجد پرویز نے مؤقف اختیار کیا کہ معلوم ذرائع آمدن کا اثاثوں کی مالیت سے موازنہ کرنا ہوتا ہے، یہ مقدمہ ایسا ہے جس میں مندرجات ہی ثابت نہیں کیے گئے۔

انہوں نے جرم کے تمام جز ثابت کرنے تھے”لیکن نہیں کیے”وکیل امجد پرویز نے عدالت میں نواز شریف کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرا دیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ اثاثہ جات ایک ہی وقت میں آئی ہیں یا الگ الگ جس پر وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ 1993 سے 1996 کے درمیان یہ پراپرٹیز آئی ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن ریمارکس دیئے کہ معلوم ہے بے نامی کے مرکزی مندرجات کیا ہیں، آپ نیب قانون میں بے نامی کے حوالے سے معاونت کریں۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ کورٹ نے مفروضے پر سزا دی، فیصلے میں ثبوت کے بجائے عمومی بات لکھی ہے۔عدالت نے کہا کہ مریم نواز بینفشل اونر اور زیر کفالت بھی تھیں، لکھا کہ بچے والد کے ہی زیر کفالت ہوتے ہیں۔

اس سے قبل نواز شریف اپنی لیگل ٹیم کے ہمراہ عدالت پیش ہوئے تو سیکیورٹی کی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔500 کے قریب اہلکار سیکیورٹی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔اسلام آباد کے پولیس کے ساتھ ایف سی اہلکار اورخواتین اہلکار بھی موجود تھیں جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی عمارت پر رینجرز اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کی جانب سے دائر درخواستوں پر ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزا کیخلاف اپیلیں بحال کی تھیں، اپیلوں کی بحالی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواستیں 23 اکتوبر کو نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی کے بعد دائر کی گئی تھیں۔

واضح رہے کہ نواز شریف کو جولائی 2018 میں ایون فیلڈ ریفرنس میں 10 سال اور دسمبر 2018 میں العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔