فلسطین: قیدیوں کی رہائی

665

ہر حساس اور انسان دوست شخص کے لیے طمانیت کا باعث ہے کہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل اور فلسطینیوں کے حقوق کی محافظ تنظیم حماس کے درمیان غزہ میں عارضی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنی کابینہ اور نیشنل سیکورٹی کابینہ سے مشاورت کی جس کے بعد معاہدے کی منظوری دی گئی۔ جنگ بندی پر عمل درآمد مقامی وقت کے مطابق گزشتہ روز 10 بجے سے ہوا۔ قطر کی وزارت خارجہ نے اس معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وقفہ 4 دن تک برقرار رہے گا۔ اس وقفے کے دوران حماس کی جانب سے مرحلہ وار 50 خواتین اور 19 سال سے کم عمر بچوں کو رہا کیا جائے گا۔ اسرائیل کی طرف سے 19 سال سے کم عمر 15 فلسطینی بچوں اور خواتین کو رہا کیا جائے گا۔ قیدیوں کا تبادلہ ہلالِ احمر، اسرائیل، قطر اور حماس کی معاونت سے عمل میں آئے گا۔ قیدیوںکے تبادلے کے بعد غزہ میں امدادی سامان کی فراہمی کو بڑھایا جائے گا۔ دوسری جانب، اسرائیل کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے اختتام پر غزہ میں پھر سے فوجی کارروائیوں کا آغاز ہوگا، البتہ معاہدے کے تحت حماس کی جانب سے ہر بار 10 یرغمالیوںکو رہا کرنے پر جنگ بندی کے دورانیے میں ایک دن کا اضافہ ہوگا۔ بنیامین نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا کہ یہ وقفہ غزہ جنگ کا اختتام نہیں، اسرائیل اپنا کام جاری رکھے گا، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ قطری وزارت خارجہ نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی معاہدہ انسانی بنیادوں پر ہوا جس کے تحت امدادی سامان لے جانے کی اجازت ہوگی جبکہ امدادی سامان میں ایندھن کی ترسیل بھی شامل ہے۔ اس سلسلے میں قطر کے وزیرخارجہ نے کہا کہ حماس مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا عہد کرے تو جنگ بندی میںتوسیع ہوسکتی ہے۔
ادھر، مصر کے صدر نے جنگ بندی معاہدے میں کردار ادا کرنے پر امریکی صدر جو بائیڈن اورامیر قطر کا شکریہ ادا کیا جبکہ امریکی صدر نے کہا کہ معاہدے کے تمام پہلوئوں پر مکمل طورپر عمل کیا جانا ضروری ہے۔ غزہ جنگ میں وقفے کے لیے اسرائیلی صدر اور ان کی حکومت کے عزم کو سراہتا ہوں۔ اس حوالے سے امریکا کا یہ بھی کہنا ہے کہ تنازع کا نتیجہ کیا نکلے گا کہنا مشکل ہے لیکن جنگ کے اختتام پر فلسطینی ریاست کا قیام دیکھنا چاہتے ہیں۔ وضع اصول کے تحت غزہ علاقے میںکمی نہیں ہونی چاہیے۔ کسی فلسطینی کو غزہ سے بے خل نہ کیا جائے۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ ایسی فلسطینی ریاست کا قیام جو مغربی کنارے اور غزہ کو متحد کرے، یہ وہ پالیسی ہے جسے امریکا سپورٹ کرتا اور حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے اپنی پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ کوشش ہے کہ غزہ میں کم سے کم جانی نقصان ہو۔ زیادہ انسانی امداد پہنچائی جا سکے۔ اسی حوالے سے روسی اخبار رشیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ میں اسرائیلی ذرائع ابلاغ کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت فوری طور پر حماس کے ساتھ تبادلے کے تحت رہا کیے جانے والے تقریباً ڈیڑھ سو فلسطینی قیدیوں کی فہرست جاری کرے گی جن کی رہائی کے خلاف اسرائیلی شہریوں کو اپیل کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ ان فلسطینی قیدیوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں جن میں سے کسی پر بھی اسرائیلیوں کے قتل کا الزام نہیں ہے۔ اسرائیلی عدالت عظمیٰ ان اپیلوں پر 24 گھنٹے کے اندر فیصلہ کرے گی اور اس کی طرف سے ان فلسطینی قیدیوں کی رہائی نہ روکنے کی صورت میں اسرائیلی حکومت اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔ مصر نے ایک بار پھر اسرائیل کے بارے میں اپنے اس خدشے کا بالواسطہ اظہار کیا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے مکمل بے دخل کر کے بے وطن کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ مصری وزارت خارجہ کے ترجمان نے جنوبی غزہ میں مسلسل کی جانے والی اسرائیلی بمباری کو موضوع بناتے ہوئے کہا کہ اس بمباری کا واضح اور صاف مطلب بے گھر ہو چکے فلسطینیوں کو نشانہ بنا کر غزہ کی پٹی سے ہی نکالنا ہے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ مصر نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی ہر کوشش کو مسترد کرتا ہے۔
ادھر، حماس کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 7 اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ کی پٹی پر جاری اسرائیلی بمباری میں 14128 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 5840 بچے اور 3920 خواتین شامل ہیں۔ بمباری کے نتیجے میں مزید 33 ہزار افراد زخمی بھی ہوئے۔ عارضی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ یقینا ایک خوش آئند پیش رفت ہے اور اس سے نہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے میں مدد ملے گی بلکہ غزہ میں زخمی اور جنگ سے متاثر دیگر افراد تک امداد پہنچانے کا سلسلہ بھی بہتر بنایا جاسکے گا لیکن یہ سب کچھ اس مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے جو اب سے پون صدی پہلے پیدا ہوا تھا۔ امریکا اور برطانیہ سمیت زیادہ تر مغربی ممالک غاصب صہیونی ریاست کے ہاتھ مضبوط کر کے اس مسئلے کو طول دے رہے ہیں جس سے بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کا امن و امان مسلسل خطرات کا شکار ہے۔ اقوامِ متحدہ ان ممالک کے ہاتھوں خود یرغمال بنا ہوا ہے اس لیے وہ اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔ اس صورتحال میں روس اور چین جیسے ملکوں کو آگے بڑھ کر اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ یہ تقاضا مسلم ممالک سے بھی کیا جاسکتا تھا لیکن ڈیڑھ مہینے تک جاری رہنے والی اسرائیلی درندگی پر مسلم ممالک کے ردعمل نے یہ ثابت کیا کہ وہ محض زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔