ہمیں نہیں معلوم کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان اور بحیثیت ِ مجموعی افغانستان کی دینی قیادت کی سوچ کیا ہے، لیکن پاکستان کی دینی قوتوں کے لیے پاک افغان تعلقات کا بگاڑ انتہائی روحانی اذیت اور تکلیف کا باعث ہے، پاکستان کے دینی طبقات نے افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد کا جو تناظر سوچا تھا، یہ اُس خواب کی الٹی تعبیر ہے۔ اس لیے ہم نے 12جنوری 2023 کو ’’امارتِ اسلامیہ افغانستان کے نام‘‘ ایک خصوصی کالم اس امید پر لکھا تھا کہ شاید کسی ذریعے سے ہمارا یہ پیغام امارتِ اسلامیہ افغانستان کی قیادت تک پہنچ جائے اور وہ پاک افغان تعلقات کے بگاڑ پر قابو پانے کے لیے کوئی اَحسن تدبیر اختیار کریں، ہمیں بعض دوستوں نے بتایا کہ آپ کا پیغام افغان قیادت تک پہنچ چکا ہے، لیکن اس کے بعد بدقسمتی سے بگاڑ میں مزید اضافہ ہوا جو انتہائی تشویش کا باعث ہے، یہ حالات صرف پاک افغان دشمنوں کے لیے تسکینِ روح کا باعث بن سکتے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے وطنِ عزیز میں دہشت گردی کے واقعات میں نہایت تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور پاکستان میں سویلین اور فوجی نقصانات کافی بڑھ گئے ہیں، مذہبی اجتماعات پر خودکش حملے ہوئے، پہلا بڑا حملہ خیبر پختون خوا کے ضلع باجوڑ کے مقام خار میں پشتون آبادی کے علاقے میں ایک جلسے پر ہوا اور اس میں بھاری جانی نقصان ہوا۔ اس کے بعد بلوچستان کے ضلع مستونگ، میں،جو بلوچ آبادی کا حصہ ہے، میلاد النبی کے جلوس پر خود کش حملہ ہوا اور بھاری جانی نقصان ہوا، اس کے علاوہ پاکستان کے دفاعی اداروں کے اہلکاروں پر متعدد حملے ہوئے ہیں، ان میں ہمارے افسر اور جوان شہید ہوئے۔ حال ہی میں اوماڑہ کے قریب گھات لگاکرحملہ کیا گیا اور اس میں ہمارے دفاعی اداروں کے 14اہلکار شہید ہوئے اور تازہ ترین حملے میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے کا ایک افسر بھی شہید ہوا۔ پاکستان میں یہ تاثر مستحکم ہورہا ہے کہ اس کے پیچھے تحریک طالبانِ پاکستان ہے اور اُن کی کمین گاہیں افغانستان میں واقع ہیں، اُن کی تربیت اور ذہن سازی بھی وہیں ہوتی ہے اور پاکستان میں اس پر یقین کرنا دشوار ہے کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان کو اس کی بابت کچھ معلوم نہیں ہے۔
اگرچہ افغان حکومت کے ترجمان تسلسل کے ساتھ بیان دے رہے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کو پڑوسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، نیز یہ کہ مذہبی اجتماعات اور مدارس ومساجد پر حملہ کرنا اُن کی پالیسی کا حصہ نہیں ہے، امارتِ اسلامیہ افغانستان کے رہبر ملا ہبت اللہ کی طرف منسوب یہ بیان بھی آیا کہ یہ حملے حرام ہیں، لیکن ان وضاحتوں سے اہلِ پاکستان اور پاکستان کے ریاستی اداروں کے خدشات کا ازالہ نہیں ہورہا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے رہبر ہدایت جاری کریں اور اس ہدایت کے تحت امارتِ اسلامیہ کے زعماء پاکستانی ریاستی اداروں کے ساتھ خلوصِ نیت کے ساتھ بیٹھیں اور خالی الذہن ہوکر تمام حقائق کا جائزہ لیں اور جو شواہد اُن کے سامنے رکھے جائیں، اگر وہ درست ہیں تو اُن کے ازالے کے لیے فیصلہ کن احکامات جاری کریں، ذمے داروں کو قرار واقعی سزا دیں۔ باہمی تعلقات میں یہ تنائو اور بے اعتمادی پاکستان اور افغانستان دونوں میں سے کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ افغانستان کی معیشت ہمیشہ سے پاکستان کے ساتھ جڑی رہی ہے اور اس کا زیادہ انحصار پاکستان پر ہی رہا ہے، اگر یورپ کی مشترکہ منڈی بن سکتی ہے اور 27ممالک یورپین یونین کا حصہ بن سکتے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی کسٹم چیک پوسٹ نہیں ہوتی اور تجارتی مال اور اشیائے ضرورت کی آزادانہ نقل وحمل ہوتی ہے، تو پاکستان اور افغانستان میں ایسا انتظام کیوں ممکن نہیں ہے۔ مگر یہ سب کچھ باہمی اعتماد کی فضا میں ہوسکتا ہے، جہاں ایک دوسرے کے بارے میں خدشات ہوں، شکوک وشبہات ہوں، ایک ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے والوں کو دوسرے ملک میں تربیت دی جاتی ہو، پناہ مل جاتی ہو تو اعتماد کی فضا قائم نہیں ہوسکتی اور نہ الزامات کے تبادلے سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے ایک با اختیار مشترکہ کمیشن ہونا چاہیے، دونوں ممالک میں خفیہ معلومات کے تبادلے (Intelligence Sharing) کا سریع الاثر، دیرپا اور قابلِ اعتماد نظام ہونا چاہیے، ابھی تو افغانستان کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم بھی نہیں کیا گیا، پس اس کی اپنی بھی ضرورت ہے کہ دنیا کے ممالک کے ساتھ تعلقات کے لیے اس کا کوئی نہ کوئی گیٹ وے ہونا چاہیے۔
ہمیں معلوم ہے کہ افغانستان میں سوویت یونین کے قبضے کے بعد جہادی قوتوں اور پاکستان کے اداروں میں طویل عرصے تک تعاون رہا ہے، افغانستان کی جِدُّوجُہدِ آزادی میں پاکستان کے عوام اور اس کے ریاستی اداروں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ نیز ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نائن الیون کے بعد ایک تلخ اور تکلیف دہ دور بھی گزرا ہے اور تلخیوں کو بھلانا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا، لیکن اس کے لیے ہمیں فتح مکہ کے موقع پر رحمۃ للعالمین، خاتم النبیّٖن سیدنا محمد رسول اللہؐ کے اسوۂ مبارکہ کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ آپؐ نے اُن سب لوگوں کو معاف کیا، جو آپ کے جانی دشمن تھے، جنہوں نے معاذ اللہ! آپ کی جان لینے کے منصوبے بنائے تھے، آپ کو ترکِ وطن پر مجبور کیا تھا، مدینۂ منورہ میں بھی آپ کو چین سے بیٹھنے نہ دیا اور بدر، اُحد اور خندق کی جنگیں مسلّط کیں، مدینۂ منورہ میں یہودی قبائل کے ساتھ سازباز کر کے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں، بیعتِ رضوان کے موقع پر کفارِ مکہ نے انتہائی سنگ دلی اور شقاوت کا مظاہرہ کیا، رسول اللہؐ کی معیت میں کم وبیش چودہ سو صحابۂ کرام عمرے کی نیت سے مکۂ مکرمہ آئے، لیکن مشرکین مکہ سدِّراہ بن گئے اور مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت نہ ملی اور وہ عمرے کی سعادت حاصل کیے بغیر اپنی قربانی کے جانوروں کو ذبح کر کے اور احرام کھول کر واپس مدینۂ منورہ تشریف لے گئے، لیکن اس کے باوجود رسول اللہؐ نے اُن سب کو معاف فرمادیا۔
پس امارتِ اسلامیہ افغانستان کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان نے افغانستان کی خاطر عالمی طاقتوں کے دبائو کا مقابلہ بھی کیا ہے اور کبھی بھی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع نہیں کیا۔ افغانستان میں امریکا کی سرپرستی میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں رہیں، یہ عجب بات ہے کہ انہیں پاکستان سے مستقل ناراضی اس لیے رہی کہ پاکستان طالبانِ افغانستان کی پناہ گاہ ہے، اُن کی سرپرستی کر رہا ہے، اِس کا تقاضا تو یہ تھا کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے قیام کے بعد پاک افغان تعلقات مثالی ہوتے، لیکن وہی گلے شکوے اوربے اعتمادی آج بھی قائم ہے، حالانکہ مشہور قول ہے: ’’دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے‘‘، تو اگر امریکا کے زیرِ سرپرستی قائم حکومتیں تحریک طالبانِ افغانستان کی دشمن تھیں اور وہ پاکستان کو بھی اپنا مخالف سمجھتے تھے تو فطری طور پر امارتِ اسلامیہ افغانستان اور پاکستان میں مثالی تعلقات ہونے چاہییں، لیکن صدافسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔
امارتِ اسلامیہ افغانستان اسلامی شریعت کے نفاذ کی علمبردار ہے، اُسے چاہیے: پاکستان کے سرکردہ اور قابلِ اعتماد علماء کو اعتماد میں لے اور اُن کے توسط سے تعلقات کو انتہائی نفرت تک پہنچانے کے بجائے قُربتوں کے راستے تلاش کرے، ایک دوسرے کی جائز شکایات کا ازالہ کریں، فریقین اپنے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کریں،
حوصلے سے کام لیں، ایسے حالات پیدا کریں کہ پاکستان کو اپنی مغربی سرحد پر افواج رکھنے کی نوبت ہی نہ آئے، ماضی میں ظاہر شاہ اور سردار دائود کے اَدوارِ حکومت میں بھی جب بظاہر دونوں ملکوں کے تعلقات میں تنائو رہا، تب بھی پاکستان کی مغربی سرحد پر ہماری افواج کا وجود محض علامتی تھا اور ایک دوسرے سے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا، حتیٰ کہ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی پاکستان کو اپنی شمال مغربی سرحد پر افواج کی تعیناتی کی ضرورت نہیں پڑی، جو بھی تنائو تھا، صرف پروپیگنڈے اور لفظی اظہار تک محدود تھا، دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے خلاف کوئی تخریبی کارروائیاں نہیں ہوتی تھیں، آج یہ سب کچھ کیسے بدل گیا، سمجھ سے باہر ہے۔
پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے پڑوسی بھی ہیں، ڈیورنڈ لائن یعنی پاک افغان سرحد کے دونوں طرف پشتون قبائل ایک جیسے ہیں، ان کی ذیلی قومیتیں مشترک ہیں، بیسویں صدی کے نصفِ آخر سے افغانستان کی جانب سے اسمگلنگ بھی ہوتی رہی ہے اور اسمگل شدہ مال پشاور کے قریب باڑہ مارکیٹ میں فروخت بھی ہوتا تھا اور ملک کے اندر بھی آتا تھا، لیکن ہر دور کی حکومتِ پاکستان نے ہمیشہ اس سے صرف نظر کیا، کیونکہ پاک افغان سرحد پر قبائل کا روزگار اس سے وابستہ تھا، یہ سب کچھ بے قاعدہ تھا، مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومتِ پاکستان کی خاموش رضامندی اس میں شامل تھی۔ آج بھی بہت سے افغانستانی پاکستانی معاشرت میں ضم ہوچکے ہیں، ان کے بڑے بڑے کاروبار اور جائدادیں پاکستان میں ہیں۔
افغان مہاجرین کی واپسی اگر ناگزیر ہے تو دونوں ملکوں کے باہمی اشتراک سے اس کا طریقۂ کار وضع ہونا چاہیے تاکہ جو افغان عرصۂ دراز تک پاکستان میں رہنے اور پناہ حاصل کرنے کے بعد اپنے ملک واپس جائیں تو اچھی یادیں لے کر جائیں، نفرتیں ساتھ لے کر نہ جائیں کہ وہ آئندہ نسلوں میں بھی منتقل ہوں، ہمیں محبتیں بانٹنے کی کوئی تدبیر سوچنی چاہیے۔
ہمیں معلوم ہے: ایسے حالات میں عوام کی سطح پر نفرتوں کا کاروبار آسانی سے پھیلتا ہے، لیکن یہ دونوں ملکوں کے دیرپا تعلقات کے لیے مفید نہیں ہے، بلکہ زہرِ قاتل ہے، قبل اس کے کہ حالات قابو سے باہر ہوجائیں، اس زہرکا تریاق تلاش کیا جانا چاہیے۔ پاکستان اور پاکستان کے ریاستی اداروں کا دکھ بھی سمجھ میں آنے والی چیز ہے، ان کو توقع تھی کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات مثالی ہوں گے، لیکن افسوس کہ نتائج اس کے برعکس نکلے، حالانکہ پاکستان کی ہمیشہ کوشش رہی اور تمام عالمی اداروں میں آواز اٹھاتا رہا ہے کہ افغانستان کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے تاکہ معمول کے روابط پیدا ہوں، نئی حکومت کی مشکلات میں کمی آئے، وہ عالمی فورموں پر اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں اور اس پر عالمی معاہدات کے تحت جوذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، اُن سے عہدہ برآ ہوسکے۔