اسلام آباد: یف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سادہ ساسوال ہے کہ کیا حکومت ٹیکس لگاسکتی ہے یا صرف یہ اسمبلی کو اختیار حاصل ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسمبلی کہتی ہے کہ حکومت ٹیکس لگائے یا اسمبلی ایف بی آر کو ٹیکس لگانے کااختیار دے سکتی ہے، آئین نے منی بل کو قانوی سازی سے الگ کردیا ہے۔ پارلیمنٹ اپنا اختیار کسی کو نہیں دے سکتی اس لئے منی بل کا الگ تصورہے۔ سرکار کو ٹیکس لگانے کااختیار کس طرح مل گیا، کیا اسمبلی کو اختیار حاصل نہیں ہے یا حکومت کو اختیار مل چکا ہے۔ جب وکیل کہتے ہیں سچی بات ہے تو شک ہونے لگتا ہے،وکیل دل کی باتیں گھر میں جاکرکسی سے کریں، یہ قانون کی عدالت ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کمشنر ان لینڈ ریونیو کی جانب لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف17شوگر ملوں کے خلاف دائر اپیلیوں پر سماعت کی۔ حکومت کی جانب سے 2007میں شوگر ملوں پر ایک فیصد امپورٹ ڈیوٹی عائد کی گئی تھی جسے انہوں نے چیلنج کیا تھا۔
دوران سماعت سابق وزیر قانون سینیٹر ڈاکٹر محمد فروغ نسیم، سابق اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید خان، ڈاکٹر الیاس ظفر، عرفان میر ہالیپوٹا ،اقبال سلمان پاشااور دیگر مختلف شوگر ملز کی جانب سے بطور وکیل پیش ہوئے۔ کمشنر ان لینڈ ریونیو کی جانب سے چوہدری محمد ظفر اقبال پیش ہوئے۔ جبکہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنر ل پنجاب عدالتی نوٹس پر عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کہہ سکتی تھی کہ اتنے فیصد ٹیکس لگادیں اس کیس میں اسمبلی نے اپنی پاور حکومت کو تفویض کردی کہ کہ ٹیکس لگائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لینگوئج اور ایس آراوز بعد کی بات ہے یہ بحث میگناکارٹا سے شروع ہوئی کہ منتخب نمائندے ہی ٹیکس لگاسکتے ہیں، جبکہ امریکہ پہلے برطانیہ کاحصہ تھا اوروہاں تحریک شروع ہوئی کہ نمائندگی کے بغیر کوئی ٹیکس نہیںجس کے بعد امریکہ الگ ملک بن گیا۔ چیف جسٹس نے کی مزید سماعت 23نومبر تک ملتوی کردی۔