!شفاف انتخابات قومی وآئینی ضرورت

691

بالآخر عدالتی حکم نامے کے تحت الیکشن کمیشن اور صدر مملکت کی باہمی مشاورت کے بعد جمعرات 8 فروری 2023 کو عام انتخابات کرانے کا معاملا طے ہوگیا ہے گو کہ اس اعلانیہ تاریخ میں آئین میں دیے گئے 90 دن کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا ہے اس کے باوجود انتخابات کی تاریخ کا اعلان خوش آئند ہے کیوں کہ اب اس سے انتخابات کے حوالے سے پیدا ہونے والے تمام خدشات دم توڑ چکے ہیں۔ آئین کے مطابق نگران حکومت کے قیام کے بعد 90 دنوں کے اندر انتخابات کرانا لازمی ہوتا ہے مگر پی ڈی ایم حکومت نے اپنے مفادات کے لیے نئی متنازع مرم شماری کی منظوری دیکر انتخابات کے عمل کو مؤخر کیا۔ اسی طرح پنجاب اور کے پی کے میں بھی انتخابات 90 دنوںکے اندر نہ کروا کر الیکشن کمیشن اور پی ڈی ایم حکومت نے دستور وقوم کے ساتھ سنگین مذاق کیا۔ انتخابات کی تاریخ دینے میں الیکشن کمیشن کی سستی یا تاخیر حربے غیر آئینی وقابل گرفت ہیں جس کی ان سے ضرور با زپرس ہونی چاہیے۔ قانونی ماہرین انتخابات کی تاریخ کے اعلان میں تاخیرکو الیکشن کمیشن اور صدر پاکستان کی کوتاہی قرار دے رہے ہیں تاہم اب تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے تو اسے دیرآید درست آید قرار دیتے ہوئے اب آگے بڑھنا چاہیے۔

نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی اصل اور بنیادی ذمے داری آئین کے مطابق مقررہ مدت کے اندر صاف وشفاف انتخابات کرانا ہے یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ ملک میں شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کا انعقاد قومی وآئینی ضرورت ہے اگر ماضی کی طرح جھرلو انتخابات ہوئے توپھر اس کا کوئی فائدہ ملک وقوم کو نہیں پہنچے گا۔ صاف وشفاف انتخابات کے لیے یہ بھی ناگزیر ہے کہ الیکشن کمیشن کو مالی وانتظامی طور پر بااختیار بنانے کے ساتھ انتخابی اصلاحات بھی کی جائیں، تمام سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے برابر کی بنیاد پر موقع فراہم کیا جائے۔ انتخابات کو طاقت اور مال ودولت کا کھیل بنانے کے بجائے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد اور بہتر قابل ومخلص قیادت کے میدان میں کھڑا ہونے کو یقینی بنایا جائے۔

دیکھا گیا ہے کچھ جماعتیں وامیدوار حکومتی مشینری اور طاقت ودولت کی بنیاد نہ صرف لوگوں کے ضمیر خریدتے ہیں بلکہ میڈیا سمیت تشہیری مہم کے ذریعے ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی کرکے تمام حدیں پارکردیتے ہیں جس کا سدباب انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا۔ 2018 کے انتخابات میں بھی ایک خاص جماعت کو کامیابی دلانے کے لیے مقتدر قوتوں پر کردار ادا کرنے کا الزام ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتیں بھی انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ فراہم کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ خاص جماعت کے لیے راہ ہموار کرنے کا خدشہ بھی ظاہرکر رہے ہیں جو کہ ملک وقوم کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہوگا۔ ملک میں جاگیرداری ووڈیرہ شاہی نظام کی طرح یہاں انتخابات میں بھی دوجماعتی سسٹم رہا ہے جو ایک دوسرے کے سہولت کار اور باری باری کے ساتھ ملک پر حکمرانی کرتی رہی ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں بھی دونوں جماعتوں سے کچھ لوٹے نکال کر تیسری جماعت کھڑی کرکے اقتدار میں لایا گیا۔ دراصل یہی چالیس سے پچاس لوگ ہمیشہ اقتدار کا چڑھتا سورج دیکھ کر وفاداریاں بدلتے رہے ہیں جس سے نہ صرف اہل ودیانتدار قیادت کا راستہ روکا گیا بلکہ پارلیمنٹ بھی یرغمال رہی اور بہتر کردار بھی ادا نہیں کیا۔ امید کی جاتی ہے کہ جس طرح انتخابات کی تاریخ طے کرنے میں عدالت نے اہم کردار ادا کیا بالکل اسی طرح وہ آٹھ فروری کو ملک میں صاف و شفاف اور غیرجانبدار انتخابات کے انعقاد کے لیے اپنا بھرپور کردرا ادا کرے گی۔