غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی (Genocide) کا سلسلہ جاری ہے، جمعرات 9نومبر 2023 تک تقریباً ساڑھے دس ہزار شہادتیں واقع ہوچکی ہیں، ان میں بچے، بوڑھے، عورتیں اور ہر عمر کے لوگ شامل ہیں، پچیس ہزار سے زائد زخمی بتائے جاتے ہیں اور پانچ لاکھ سے زائد بے گھر ہوچکے ہیں، غزہ کا تعمیراتی اسٹرکچر تقریباً تباہ ہوچکا ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ ملبے تلے مزید کتنے افراد شہادت سے سرفراز ہوچکے ہوں گے، قبرستان تنگ پڑ چکے ہیں، آدھے اسپتال شدید بمباری کی زد میں آچکے ہیں، خوراک اور ایندھن نایاب ہے، زخمیوں اور شدید بیمار لوگوں کے آپریشن کے لیے Anaesthesia یعنی بے ہوش کرنے والی دوا دستیاب نہیں ہے، ڈاکٹر مریضوں کا ہوش وحواس کے عالم میں آپریشن کر رہے ہیں، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان مریضوں کی اذیت اور کرب کا عالَم کیا ہوگا، یہ ناقابلِ تصور ہے۔ او آئی سی کی جانب سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
امریکا سپر پاور ہونے کے باوجود دنیا کی قیادت کرنے کی اخلاقی پوزیشن سے محروم ہوچکا ہے، وہ اسرائیل سے بڑھ کر فلسطینیوں کا دشمن بن چکا ہے، اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں غیر مشروط جنگ بندی کی سب قراردادوں کو امریکا ویٹو کرچکا ہے، جی سیون اور تمام یورپی ممالک اس کے ہمنوا ہیں اور امریکا اُن سب پر دبائو ڈال کر اپنی ہمنوائی پر مجبور کر رہا ہے۔ حکومتِ اسرائیل نے کہا ہے: اپنے دوسو سے زائد یرغمالی قیدیوں کی رہائی اور حماس کے خاتمے تک وہ جنگ بندی قبول نہیں کرے گا اور آئندہ کے لیے بھی غزہ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھے گا۔ دنیا بھر میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور نسل کشی کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں، لیکن عملی طور پر ان کا کوئی مثبت اثر مرتّب نہیں ہورہا اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ حکومتِ اسرائیل اپنے موقف پر قائم ہے۔
امریکا فلسطینیوں کی نسل کُشی اور غزہ پر مظالم کو اسرائیل کے حقِ دفاع سے تعبیر کر رہا ہے، حماس کے خاتمے کی اسرائیلی خواہش کی بھی حمایت کر رہا ہے، وہ انہیں دہشت گرد قرار دے رہا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک کو بھی اس پالیسی کی حمایت پرمجبور کرنے کے لیے دبائو ڈال رہا ہے، جبکہ اس کے برعکس وہ فلسطینیوں کے حقِ دفاع کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ امریکا کے سابق صدر باراک اوباما نے کہا ہے: ’’فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے، کسی نہ کسی حد تک ہم سب اس میں شریک ہیں، انہوں نے اوباما فاؤنڈیشن کے ڈیموکریسی فورم میں بات کرتے ہوئے تنازع فلسطین کے دو ریاستی حل اور قبضے کے خاتمے پر زور دیا، فلسطین میں انسانی حقوق کے گروہوں کا کہنا ہے: اسرائیلی بمباری سے غزہ کے اندر 15لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں جو 1948 کی بڑی تباہی کے بعد یہ اب تک بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
آج تک امریکا یا اقوامِ متحدہ نے ’’دہشت گردی‘‘ کی کوئی متفقہ قابلِ قبول تعریف نہیں کی، لہٰذا ’’دہشت گردی‘‘ کا الزام ان کے ہاتھ میں ہتھیار ہے، وہ جب چاہتے ہیں، اسے اپنے وطن کی آزادی کی جِدّوجُہد کرنے والوں پر تھونپ دیتے ہیں، اٹھارہویں صدی کی آخری چوتھائی میں اہلِ امریکا کے آبائواجداد نے بوسٹن سے برطانوی سامراج کے خلاف مسلّح جدّوجُہد شروع کی تھی اور اُن کی آزادی کے جو ہیرو ہیں، اُن کے مجسمے آج بھی بوسٹن میں نصب ہیں۔ امریکی اسی لیے دہشت گردی کی مسلّمہ اور متفقہ تعریف کرنے پر آمادہ نہیں ہیں کہ یہی تعریف اُن کے اجداد پر بھی صادق آئے گی۔
تنظیم آزادیِ فلسطین الفتح کے سربراہ محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی کی پالیسی بھی غزہ کے حوالے سے واضح نہیں ہے، وہ صرف علامتی بیانات دے رہے ہیں۔ دی اکانومسٹ میں شائع شدہ ایک آرٹیکل میں کہا گیا ہے: ’’عرب حکمران سفارتی روابط کے وقت اندرونِ خانہ امریکا سے یہ کہتے ہیں: ’’حماس کو ختم کرو‘‘، البتہ اپنے عوام کے سامنے اپنی ساکھ اور وقار کو بچانے کے لیے بظاہر امریکی پالیسی اور حکمتِ عملی کے مخالف بیانات جاری کرتے ہیں‘‘، الغرض یہ بھی منافقت اور دوغلا پن ہے اور منافقین کے بارے میں قرآنِ کریم کی اس آیت کا واضح مصداق ہیں: ’’وہ اپنے مونہوں سے وہ بات کہتے ہیں جو اُن کے دلوں میں نہیں ہے‘‘۔ (آل عمران: 167) ایسا معلوم ہوتا ہے: ’’آمرانہ حکومتوں کو اندیشہ ہے کہ اگر حماس والے فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں کامیاب ہوگئے تو اُن کے ملکوں میں بھی حماس سے متاثر ہوکر انقلابی تحریکیں جنم لے سکتی ہیں‘‘۔
اسلام کی تعلیمات تویہ ہیں: ’’عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ وہ اُسے دشمن کے مقابلے میں بے یارو مددگار چھوڑتا ہے اور جو اپنے دینی بھائی کی حاجت روائی کرے گا، اللہ تعالیٰ اُس کی حاجت روائی فرمائے گا اور جو کسی مسلمان سے تکلیف کو دور کرے گا، اللہ تعالیٰ (اس کے صلے میں) قیامت کے دن اُس کی تکلیفوں میں سے کسی تکلیف کو دور فرمائے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن (اس کے صلے میں) اس کے عیوب پر پردہ فرمائے گا‘‘۔ (بخاری)
المیہ یہ ہے کہ ستاون مسلم ممالک اہلِ فلسطین کی نُصرت سے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں، صرف زبانی جمع خرچ اور مذمتی واحتجاجی بیانات پر کفایت کیے ہوئے ہیں، انتہا یہ ہے کہ غزہ کی جنگ کو ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی اجتماعی سیاسی، سفارتی، تجارتی اور اقتصادی اقدامات بھی سامنے نہیں آئے، الغرض دینی وملّی بے حمیتی ہے، دینی وملی غیرت وحمیت کا فقدان ہے۔
برصغیر پاک وہند پر مسلمانوں کی حکومت کم وبیش ایک ہزار سال حکومت رہی، آخر میں مغلوں کی حکمرانی رہی، لیکن اس کا انجام انتہائی عبرت ناک تھا، غلام قادر روہیلہ برصغیر کی تاریخ میں ایک انتہائی سفاک اور سنگدل شخص گزرا ہے، اس نے مغل شہنشاہ شاہ عالم کی آنکھیں نکلوا ڈالیں اور مغل شہنشاہیت کے جبروت اور سطوت کی نشانی لال قلعہ کے دیوان خاص میں، جہاں کبھی شاہجہاں اور اورنگزیب عالمگیر تخت طاوس پر بیٹھ کر ہندوستان کی تقدیر کے فیصلے کرتے تھے، اس نے مغل شہزادیوں کو رقص کرنے کا حکم دے دیا اوراپنی ننگی تلوار اپنے سرہانے رکھ کر سونے کا تاثر دیا،
اس وقت غلام قادر روہیلہ نے یہ تاریخی جملہ بولا: ’’میرا خیال تھا کہ تیمور کی بیٹیوں میں کچھ غیرت و حمیت باقی رہ گئی ہو گی اور وہ مجھے سوتا سمجھ کر میرے خنجر سے مجھے قتل کرنے کی کوشش کریں گی، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، اب مغل شہنشاہیت کو مٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا‘‘، اسی کیفیت کو علامہ اقبال نے اس شعر میں بیان کیا ہے:
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیّت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے
جہاں تک جہاد سے متعلق فتوے کا تعلق ہے،گزارش یہ ہے: حکومتیں یہ سمجھتی ہیں، یہ اُن کا اختیار ہے اور مفتیانِ کرام کو قومی اور عالمی معاملات پر انفرادی فتوے جاری نہیں کرنے چاہییں، کیونکہ اس سے حکومتوں کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ورنہ ایسی صورت میں نفیرِ عام یعنی جہاد کا عام حکم دیا جاتا ہے اور اس کا اطلاق الاقرب فالاقرب کے اصول پر ہوتا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ فلسطین سے متصل مسلم ممالک کسی ایسے اقدام پر ہرگز آمادہ نہیں ہوں گے اور موجودہ ملکی وعالمی قوانین میں عامّۃ المسلمین اپنی اپنی حکومتوں کی اجازت کے بغیر مسلّح ہوکر اپنے ملکوں کی سرحدوں سے باہر جاسکتے ہیں اور نہ کسی دوسرے ملک کی سرحد میں داخل ہوسکتے ہیں، نیز اب جنگ ٹیکنیکل اور پیشہ ورانہ ہے، یہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے اور اس کے لیے ہر ملک میں مسلّح افواج موجود ہیں۔
ہمیں معلوم ہے: لبرل عناصر طَعن کرتے ہیں، کیونکہ انہیں اہلِ دین پر طعن کرنے کا کوئی بہانہ ملنا چاہیے، ورنہ یہی وہ لوگ ہیں جو کورونا کے وقت پاکستان کی مساجد کو بند کرنے کے لیے ہمارے سامنے سعودی عرب، مصر اور دیگر عرب ممالک کی مثالیں پیش کرتے تھے کہ سعودی عرب اور جامعۃ الازہر کے فتوے پر عمل کرنا چاہیے، لیکن اب وہاں سے فتوے نہیں آرہے، نہ کوئی ان سے ایسا مطالبہ کرسکتا ہے اور نہ وہ اپنی حکومتوں کی مرضی اور منشا کے خلاف فتوے جاری کرسکتے ہیں، اسی لیے تو ہم کہتے ہیں: ’’پاکستان کے وجود کو غنیمت سمجھنا چاہیے کہ یہاں حکومت کی ناراضی کے باوجود کلمۂ حق کہنے والے علماء موجود ہیں اور وہ ہر طرح کے نتائج کے لیے تیار رہتے ہیں‘‘۔
دوسرا مسئلہ غزہ کے متاثرین کی امداد کا ہے، اقوامِ متحدہ کے متعلقہ اداروں کا کہنا ہے: مصر نے امداد کی ترسیل کے لیے کھلے عام اجازت نہیں دے رکھی، بہت محدود پیمانے پر امداد جارہی ہے، ہمیں بتایا جارہا ہے: ترکی سے بعض غیرسرکاری رفاہی ادارے امداد کی ترسیل کر رہے ہیں، لیکن اُن کا طریقۂ کار بھی ہمیں معلوم نہیں ہے کہ آیا اُس کا راستہ کون سا ہے، طریقۂ کار کیا ہے، وہ متاثرہ علاقوں میں خود پہنچ سکتے ہیں، امداد کی تقسیم کا نظام کیا ہے، انہیں سامان اور اجناس چاہییں یا نقد رقوم چاہییں، یہ تفصیلات کم از کم ہمارے علم میں نہیں ہیں، ظاہر ہے: ہرآدمی جنگ زدہ علاقوں میں نہیں جاسکتا، امداد کی ترسیل، اُسے محفوظ مقام پر ذخیرہ کرنے اور متاثرین تک پہنچانے کا کوئی محفوظ نیٹ ورک درکار ہوتا ہے، اس کی تفصیلات بھی ہمیں دستیاب نہیں ہیں۔
امریکا کے ایوانِ نمائندگان نے اسرائیل کے لیے 14ارب تیس کروڑ ڈالر کی امداد کی منظوری دی ہے، لیکن مسلم حکومتوں کی جانب سے غزہ کے متاثرین کے لیے ایسا کوئی انفرادی یا اجتماعی اقدام ہمارے علم میں نہیں ہے، اقوامِ متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشنز ہائی کمشنر برائے مہاجرین (UNHCR) والے بھی شکایت کررہے ہیں کہ اُن کے تحت بھی امداد کی ترسیل آسانی سے نہیں ہورہی، اس لیے لازم ہے کہ ایسی امداد جمع کرنے، اسٹاک کرنے، ترسیل اور تقسیم کا قابلِ اعتماد نظام ہونا چاہیے۔ مسلم ممالک کو متحد ہوکر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ جنگ فوری اور غیر مشروط طور پر بند کی جائے اور متاثرین کی امداد، بحالی اور تباہ شدہ تعمیراتی ڈھانچے، اسپتالوں، سڑکوں اور شہری نظام کی تعمیر نو کے لیے اربوں ڈالر کا فنڈ قائم کیا جائے۔ نیز امریکا دوریاستی حل کی حمایت کا جو تاثر دے رہا ہے، اس پر فوری عمل کیا جائے تاکہ اس مسئلے کا مستقل حل نکل سکے اور انسانی جانوں، شہری ڈھانچے اور املاک کی تباہی کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے رک جائے۔