سردی اور ملکی و صوبائی انتخابات ایک ساتھ آرہے ہیں، سردی کی طویل راتیں چوروں، ڈاکوئوں کے لیے گولڈن سیزن کہلاتی ہیں، اس میں جرائم بڑھتے ہیں اب تو بھاری انتخابی اخراجات کا معاملہ بھی ہوگا تو جرائم دو چند ہوں گے۔ سندھ کی تاریخ میں یہی ہوتا آیا ہے، اب بھی اس کے خدشات بڑھ کر ہیں، سیاست اور جرائم سندھ کی سیاست میں جڑواں ہیں، اس جوڑ کے سامنے ادارے شکست خوردہ ہیں کیونکہ وہ رشوت کے کیڑوں نے کرم خوردہ کر ڈالے ہیں جب ہی تو ایک اعلیٰ پولیس افسر نے یہ پیغام دیا کہ رہزن سے مزاحمت نہ کریں جو مانگے بغیر ہاتھ چراند کیے دے دیں، ہاتھا پائی جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے، جان ہے تو جہان ہے، رہا مال و متاع اور آجائے گا۔ صوبہ سندھ میں جرائم کا راج ہے، سیاسی بھرتی کے ادارے تاراج ہیں جرائم کی کہانی پرانی ہے مگر ایسی بھی نہ تھی جو پی پی پی کی حکومت اور دور نگراں میں ہوگئی۔ کراچی جو رت جگا کا شہر ہوا کرتا تھا اب خوف زدگاں کی بستی بن کر رہ گیا ہے، کوئی داد و فریاد سننے والا نہیں، چاول بدامنی کی دیگ میں سے ایک دانہ کی یہ رپورٹ بدترین صورت حال کی نشان دہی کررہی ہے مگر کن کو اُن کو جو آنکھیں موندے بیٹھے ہیں کہ بھاڑ میں جائے کراچی، سابق آرمی چیف باجوہ اپنے دور میں تاجروں کو کہہ چکے کہ پنجاب میں انڈسٹری لگائو تحفظ ہوگا یوں وہ بے امنی کے سامنے سرینڈر کرچکے تھے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق صرف دس ماہ میں کراچی میں 50 ہزار موٹر سائیکل چوری و چھینی گئی ان میں 43951 موٹر سائیکل چوری 5876 اسلحہ کے زور پر چھینی گئی ان ہی دس ماہ کے دوران 1703 گاڑیاں چوری اور 212 گاڑیاں چھینی گئیں جبکہ 2446 موبائل فونز بھی چھینے گئے۔
اندرون سندھ کی بدامنی ضرب المثل ہے۔ یہ صورت مگر ایسی ستم کاری 1983 کی ایم آر ڈی کی تحریک سے پہلے ہرگز نہ تھی جب جرائم پیشہ افراد کو سیاسی پشت پناہی دی گئی اور ان کے ہنر کو سیاسی میدان میں آزمانے کا سامان ہوا۔ اور ان کے سینہ پر غیرت مند کا تمغہ سجایا گیا بس پھر کیا ہوا جس کو سیاں چاہے اُس کو تال کا کیا ڈر یہ مرض بڑھتا گیا تدابیر پسپائی اختیار کرتی گئیں اور بات مسنگ پرسن تک آگئی کہ مخالف کو اغوا کرلو، گم کردو، اور میدان صاف کرلو، رہا معاملہ عدالت کا اس کا معاملہ تاخیری وکلا حربوں اور بے تحاشا سرمایہ طلبی کی وجہ سے وقت اور سرمایہ کا زیاں اور جھنجٹ سمجھا جانے لگا۔ اب عالم یہ ہے کہ ہر جگہ ڈاکو بیٹھے ہیں، مال کی ہوس نے انہیں اندھا کردیا ہے۔ بے امنی اور سیاست کا ریاست میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور دھرنے کی صورت سیاست چمکانا اور مال کمانا معمول بن کر رہ گیا ہے۔ چھوٹے سے لے کر بڑے مطالبہ کی بارآوری کا حل دھرنا ہے۔ شاہراہیں بلاک کرکے عوام مسافروں کو عذاب میں مبتلا کرو اور خود مطالبہ کا ثواب لوٹ لو۔ سندھ میں دھرنے کا کامیاب ترین تجربہ رہا ہے، وڈیرے بنگلوں میں بیٹھ کر ڈوری ہلاتے ہیں ان کے چمچے بوٹ پالشیے میدان میں نکلتے ہیں بیوروکریسی کو تگنی کا ناچ نچاتے ہیں اور وڈیرہ سے خراج تحسین پاتے ہیں۔ ہر وڈیرہ سیاسی ہوتا ہے اور حکمراں پارٹی کا رکھیل ہوتا ہے۔ اگر ان کا حاشیہ بردار قانون شکنی میں پکڑا جائے تو فون کھڑکنے لگتے ہیں اور رات گزرنے سے پہلے چھڑالیا جاتا ہے۔ قانون منہ مسوس کر رہ جاتا ہے۔ اور تو اور ان سیاسی وڈیروں نے اپنے جرائم پیشہ ہم نوالہ کو محکمہ پولیس میں بھرتی کرادیا اور ایک عدالت کے ریمارکس بھی نظر سے گزرے جن میں سیکڑوں کی تعداد میں جرائم پیشہ افراد کی جرائم کی بیخ کنی کے ادارے پولیس میں بھرتی کا کہا گیا۔ یہ مخبری کرتے ہیں اور ہم پیشہ جرائم پیشہ کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور شدید ضرورت کی صورت میں مغوی کی واپسی میں ڈیلنگ کا رول بھی ادا کرکے اپنے مربی کو خوش کرتے ہیں۔ ڈیل میں اپنا اور مربی کا حصہ بھی مغوی کے رشتے داروں سے تاوان میں لیتے ہیں اور میڈیا کو کھرچن کھلا کر خوب افسر داد پاتا ہے اب میڈیا کی ہر اک معاملہ میں حصہ پتی ہے اور بلاتنخواہ کام کرنے والے ہوں یا تنخواہ دار میڈیا کے اہلکار ان کی خوشحالی کا راز اس میں پنہاں ہے۔
جرائم کی کمائی اُس سے متعلقہ ہر ادارہ کھاتا ہے اور ہر اک حصہ بقدر بھتا پاتا ہے اس کام میں بے ایمان کی سزا موت ہے پہلے تھانوں میں دس نمبری جرائم پیشہ افراد کا ریکارڈ ہوا کرتا تھا وہ پابندی سے تھانہ میں حاضری دیتے اور کہیں باہر جاتے تو تھانہ کو مطلع کرتے وہ تھانہ جہاں وہ جاتے اس تھانے کو اطلاع کرتا کہ ہمارا دس نمبر آپ کے تھانے کی حدود میں آیا ہوا ہے ذرا نظر میں رکھنا اور وہ دس نمبری جہاں جاتا تھا وہاں کے تھانے میں اپنی انٹری کرتا تھا۔ اب یہ کتاب بند ہے اور اب دس نمبری جو پولیس کا باغی ہے اور مال متاع میں حصہ داری نہیں کرتا، فل فرائی یا ہائی فرائی کردیا جاتا ہے اور جعلی حیرت ناک مقابلہ بتادیا جاتا ہے۔ جس میں پولیس سلیمانی ٹوپی اوڑھ کر مقابلہ کرتی ہے اور اس کو خراش تک نہیں آتی۔ اور تو اور پہلے تپیدار حضرات کی یہ ڈیوٹی بھی ہوا کرتی تھی کہ کوئی نیا خاندان، گھرانا کسی علاقہ سے نقل مکانی کرکے آیا ہو تو اُس علاقے سے اُس کی کرائم رپورٹ منگوائے اور خود بھی ملاقات کرکے اُن کا بائیو ڈیٹا مع تصویر، فنگر پرنٹ و دیگر حاصل کرکے ریکارڈ تیار کرکے اور متعلقہ اداروں کو رپورٹ کرے مگر اب ایسا بھی بالکل نہیں ہورہا ہے۔ تپیدار کو مال بٹورنے اور افسران کو رجھانے سے فرصت نہیں ہے۔ آپ جرائم کا شکار ہوگئے خدانخواستہ تو تھانہ میں ایف آئی آر کا اندراج عراق سے تریاق کا معاملہ ہے۔ لٹے پٹے فریادی کو مزید لوٹا جائے گا اگر اُس مظلوم کے پاس ایف آئی آر کا بھتا ہزاروں روپے پولیس کے ایس ایچ او، منشی کو دینے کے لیے نہیں تو کم مالیت کی NOC کی طرف اس کا رخ موڑ دیا جائے گا۔ یوں چور، وڈیرہ، پولیس کی ایک چین ہے جو معاشرے کو بے چین کیے ہوئے ہے۔ رہے رینجرز ان کی حالت ڈراوے کی ہے۔
اب حالات یہ ہیں کہ ڈاکوئوں کی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے پی پی پی کی حکومت نے 3 ارب روپے دیے، نگراں حکومت نے مزید 3 ارب دیے اور ہل من مزید کے مریضوں نے 4 ارب مزید مانگ لیا۔ اور معاشرے کی مانگ میں سندھور یوں بھرا کہ معروف میڈیا میں بلند آہنگ دعویٰ کرنے والا ڈاکو ثنا اللہ شر کو ایسے مقابلہ میں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا جس میں کوئی خراش فریقین کو نہیں آئی اور میڈیا میں پیش کرتے ہوئے قمیص پھٹی دکھائی۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پولیس کے اشارے پر گرفتاری دی کہ قانون کی لچک سے اس کی جان بخشی ہوجائے خوامخواہ آپریشن میں مارا جائے گا۔ اس صورت حال کا حل کیا ہے موجودہ جمہوری نظام میں جہاں ڈاکو، رہزن کا ووٹ بھی برابر کی اہمیت کا حامل ہے، کون امیدوار اُن کو ناراض کرے گا۔ سیانے کہتے ہیں تعمیر سے پہلے تخریب ضروری ہے۔ جو آسمانی کتابوں سے نہیں سمجھتا ہے اس کو ڈنڈا سمجھاتا ہے۔ اب ڈنڈا مارنے والا بھی وہ ہو جو شیطان کے جملے کے مصداق کم از کم ہو کہ مجھے پتھر وہ مارے جو پتھر کھانے کا حقدار نہ ہو۔ باب الاسلام سندھ کو بے امنی نگل رہی ہے اور حکمران سندھ میں برسہا برس سے بانسری بجا رہے ہیں اور خوشی سے بغلیں بجارہے ہیں کہ اُن کے مالی اثاثے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ رہے مقہور، مجبور، مظلوم عوام بھاڑ میں جائیں، اب پھر انتخابات کا غلغلہ بلند ہے سندھ کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر اس مرحلے میں جرائم بڑھ جاتا ہے، رشوت بڑھ جاتی ہے، وڈیروں کے حاشیہ بردار لوٹ میں دن رات ایک کردیتے ہیں تا کہ جن سیاست دانوں نے نوکریاں دی ہیں بے نظیر انکم سپورٹ کا حقدار کیا ہے، قبضہ کرنے میں معاونت کی ہے ان کی مالی ضرورت انتخابی خرچ میں بھرپور معاونت کی جائے، اللہ خیر کرے دعا ہی کرسکتے ہیں۔