سندھ میں آئندہ حکومت: ایک بڑا سوال

941

سندھ میں اقتدار کے پندرہ سال مزے لوٹنے اور اپنوں کو خوب نوازنے والی پی پی پی اس اقتدار کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے حمایتیوں سے ووٹ کا خراج آنے والے متوقع انتخاب میں جس کے امکانات نیم دروں نیم بروں ہیں وصول کرنے کے لیے پھر اپنے کارکنوں سے رابطوں میں ہے۔ وہ جہاں اُن سے مشاورت کررہی ہے وہاں جیتنے والے مستحکم سرمائے کے حامل امیدوار کی تلاش میں مصروف ہے اس سلسلے میں سابق صدر آصف علی زرداری کی ذاتی طور پر سرگرم ہیں اور وہ کارکنوں کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں کہ گھبرائو مت میں جو تمہارے ساتھ ہوں اور رہی سندھ کی حکومت وہ تو پکی بات ہے ہم تو مرکز کی حکومت کے حصول کے لیے سیاسی شطرنج پر اپنی چال میں جیتنے کی امید کررہے ہیں۔ درحقیقت بات اتنی آسان نہیں کہ سندھ کی حکومت وہ آسانی سے دوبارہ حاصل کرلیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے محمد نواز شریف کی وطن واپسی، مقتدر حلقوں کا ان کو پروٹوکول یہ فضا بنارہا ہے کہ اقتدار دلانے والی قوتیں ان کو اقتدار میں لانے کی سہولت کار ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی سوچ یہ بھی محسوس ہورہی ہے کہ وہ ملک بھر میں کلی اقتدار حاصل کرے اور سندھ میں بھی ان کی پارٹی کی حکمرانی ہو اور پی پی پی ان کے ساتھ وہ نہ کرسکے کہ جب وفاق میں بے نظیر کی حکمرانی تھی اور پنجاب میں محمد نواز شریف وزیراعلیٰ تھے تو دونوں حکومتوں تنائو بعد المشرقین تھا اور اب اگر وفاق میں مسلم لیگ ن کو حکومت بنانے کا موقع ملا اور پی پی پی کو مقدور بھر حصہ نہ دیا تو پی پی پی ماضی کے والا مسلم لیگ ن کا کردار اپنا کرنا کون چنے چبا سکتی ہے سو اب مسلم لیگ سندھ میں اس کے حمایتی پنجابی ووٹروں کو جو اندرون سندھ میں کثیر تعداد میں ہی اقتدار کے این آر او کی بدولت تارکین پارٹی ہو کر پی پی پی میں پناہ گزین ہوگئے واپس لانے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز تر کرے اس سلسلے میں مریم نواز کو سندھ کا دورہ کرانے کا ایک پروگرام ترتیب دیا جارہا ہے اور فعال مسلم لیگ ن کو کرنے کے لیے سندھ میں ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں ن لیگ سندھ کے صدر شاہ محمد شاہ، محمد زبیر، نہال ہاشمی و دیگر رہنما شامل ہیں۔

سندھ میں میمن کمیونٹی پی پی پی کے لیے نرم گوشہ کی حامل نہیں رہی ہے اور اس برادری نے مٹیاری کے ضلع میں خم ٹھونک کر پی پی پی کے امیدوار مخدوم خان کا قومی صوبائی سیٹوں پر مقابلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کا پلان سیاسی حلقہ کچھ یوں بتاتے ہیں کہ شہری علاقوں کراچی، حیدر آباد، سکھر، میرپور خاص میں وہ ایم کیو ایم سے اتحاد کرے اور اندرون سندھ میں جمعیت علما اسلام اور جی ڈی اے سے مل کر پی پی پی کا مقابلہ کرے۔ ایک طرف یہ سہ فریقی اتحاد کے امکان ہیں تو دوسری طرف شہری حلقوں بالخصوص کراچی میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی دونوں نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اپنی قوت منوائی یہ دونوں جماعتیں مل کر ان دونوں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے اتحادیوں کے مقابلہ میں مشترکہ امیدوار لائیں اور ان کو کڑا وقت دیں۔ مولانا فضل الرحمن شدید رقابت کے باعث اے این پی کراچی اور حیدر آباد جہاں پٹھانوں کی قابل ذکر آبادی ہے پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے اتحاد سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے اور کچھ لو اور کچھ دو کی حکمت عملی اپنائے جو ناممکن نہیں۔ قادر مگسی جو ایس ٹی پی کے قائد ہیں وہ بھی پی پی پی کے خلاف اتحاد سے تعاون کا اظہار برملا کرچکے ہیں۔ یوں سندھ میں پی پی پی کی جیت آسان نہیں مگر ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگی اگر مقتدر حلقوں نے تمام پی پی پی مخالفین کو ایک کردیا تو کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ مگر یہ سب جب ہوگا جب انتخاب بھی ہوں جس کا ان کو بھی یقین نہیں۔

کفر ٹوٹا خداخدا کرکے انتخابات کی تاریخ 8 فروری مقرر ہو گئی الیکش کمیشن کی صدر سے ملاقات اس مرحلے میں ہوئی جب آئی ایم ایف کا وفد قرض کی قسط کی مطلوبہ شرائط کا جائزہ لینے پاکستان آموجود ہوا امریکا کا دبائو انتخاب کراو بھی جنگ غزہ کی صورت حال نے پاکستان میں من پسند حکمران کی ضرورت پیدا کردی ہے۔ سینیٹ کی معیاد بھی مارچ میں پوری ہو رہی ہے اس کے انتخاب کے لیے قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ارکان درکار ہیں۔ پرویز مشرف نے تو اس ضرورت کا سامان بھی ضروری نہ جانا تھا اور امریکا چپ رہا مگر مقتدرہ کیا کرے عمران کا ووٹروں کے دلوں سے بھوت وہ نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور پی پی پی کو وہ سندھ میں بھی اقتدار دینے میں لیت و لعل کر رہے ہیں چہ جائے کے بلاول وزیر اعظم کی تمنا پوری ہو سو پی پی پی قیادت اعلان کر رہی ہے کے مائنس تحریک انصاف انتخاب کروائے گئے تو ناقابل قبول ہوں گے اب پالیسی ساز لولے لنگڑے انتخابات کراکے حکومت کی تشکیل اس فارمولے سے کر دے جیسی ماضی میں جام صادق کو وزیر اعلیٰ بنادیا اور پی پی پی سسکتی رہ گئی پی پی پی کے وڈیرے حسب روایت حکمران وقت کے ساتھ مل جائیں گے ان کی حویلی کے اوپر لگے ڈنڈے سے پی پی کا پرچم اتر کر حکمران پارٹی کا پرچم چڑھا دیا جائے گا مقتدر حلقوں نے چھوٹی اور بڑی برائی کے فارمولے کو اپناتے ہوئے چھوٹی برائی نواز شریف کو عالمی حالات کے تناظر میں بادل ناخواستہ قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے لیکن شدید بے امنی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔