امریکن اسکول کراچی کی ڈانس پارٹی

1167

معاصر جریدے کی 26 اکتوبر کی ایک خبر کی سرخی کے مطابق امریکن اسکول کراچی اور اسی خبر کی تفصیل کے مطابق غیر ملکی نامی اسکول کی کراچی کے ڈیفنس کے بنگلے میں پولیس کی علاقہ مکینوں کی شکایت پر کارروائی۔ خبر کے خلاصہ کے مطابق ’’گیٹ ٹوگیدر پارٹی‘‘ کی آڑ میں ڈانس پارٹی چل رہی تھی۔ پارٹی میں چھاپے کے دوران اسکول کی لڑکیاں اور لڑکے نشے میں دھت، نیم برہنہ، فحش ڈانس کرتے پائے گئے، ڈانس پارٹی میں نشے کے لیے باقاعدہ کاؤنٹر بنا رکھا تھا، تیز دھنوں پر کیے جانے والے کپل ڈانس کے دوران غیر اخلاقی حرکات بھی پائی گئیں، منظر عام پر آنے والی ویڈیو میں ڈانس پارٹی میں لگے شراب کاؤنٹر میں درجنوں شراب کی بوتلیں دکھائی دے رہی تھیں جبکہ انفرادی طور پر مختلف اقسام کا نشہ استعمال کر رہے تھے۔ تمام طالب علموں کو گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن اعلیٰ افسران کے حکم پر نشے میں دھت تمام طالب علموں کو رہا کر دیا گیا تھا اس لیے کہ تمام طالب علم امیر زادوں کی اولادیں تھیں جس میں سرکاری افسران کے بچے بھی شامل تھے‘‘۔
یہ علٰیحدہ موضوع ہے کہ ڈانس پارٹی کی اجازت کس نام سے لی گئی اور دی گئی، شراب کی کتنی بوتلیں تھیں، شراب کے علاوہ اور کون کون سی منشیات کا استعمال ہو رہا تھا، پولیس رپورٹ میں کتنی شراب کی بوتلیں ظاہر کی گئیں وغیرہ۔ ایک ٹیلی ویژن چینل کی نمائندہ سے نگران وزیر داخلہ بریگیڈیر(ر) حارث نواز نے گفتگو میں کہا کہ ’’پولیس کو بہت واضح ہدایت دی تھی کہ کسی بچے کو گرفتار نہیں کرنا ہے، یہ ہمارے بچے ہیں، بچے غلطیاں کرتے ہیں، بچوں کی شکلیں نہیں آنی چاہیے، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے والدین کو توجہ دلائی کہ اپنے بچوں کا خیال رکھیں، کل کو یہ بچے ہماری جگہ کھڑے ہوں گے‘‘۔ دیکھا جائے تو نگراں وزیر داخلہ کا یہ بہت اچھا اقدام ہے، بچوں کو انہوں نے تحفظ فراہم کیا پولیس ان کو تحویل میں نہیں لے سکی، (خبر کے مطابق گرفتار طلبہ کو رہا کردیا گیا)، نگران وزیر داخلہ نے بظاہر تو اس معاملے کو دبا دیا لیکن درحقیقت یہ ہمارے معاشرتی زوال کی ایک ایسی تصویر ہے کہ جس کی وجہ سے بااثر اور بارسوخ اپنے جرائم کْھل کے کھیل رہا ہے اور عام آدمی جس کا سوائے رشوت کے کوئی والی وارث نہیں ہوتا کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ بچے اور بچیاں جن حلیوں اور لباس میں اسکول کی پارٹی میں شرکت کرنے گئے تھے تو کیا ان کے والدین کے علم میں نہیں تھا کہ بچیاں کس قسم کا لباس زیب تن کر کے گئی ہیں؟ کیا شراب کا استعمال ان بچے اور بچیوں نے پہلی مرتبہ وہاں کیا تھا؟ دیگر منشیات کے استعمال کی جو خبر ہے، اگر درست ہے، تو کیا یہ ممکن ہے کہ عام طلبہ و طالبات اپنے اسکول کی تقریب میں جائیں اور وہاں منشیات اور شراب کا استعمال شروع کر دیں؟ یا کپل ڈانس شروع کر دیں؟۔ جس طرح ’’گیٹ ٹوگیدر‘‘ تقریب کے نام پر یہ ڈانس پارٹی منعقد کی گئی اور میوزک کے شور میں یہ پارٹی نہ جانے کتنی دیر چلی، بچے اور بچیاں جانے اور کون کون جس انداز میں میوزک اور شراب کے ساتھ یہ پارٹی اٹینڈ کر رہے تھے وہ یقینا نوآزمودہ نہیں تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بچوں کے لیے یہ پہلا موقع نہیں تھا، لازمی اس بات کا نتیجہ ہے کہ بچے پہلے بھی اس طرح کی پارٹیوں میں شرکت کرتے رہے ہیں، اس پس منظر میں نگران وزیر داخلہ کا یہ بیان ان کی انتہائی سادگی کی غمازی کر رہا ہے جو انہوں نے بچوں کے والدین کو تربیت کے حوالے سے توجہ دلائی۔
اسی معاصر جریدے کی اسکول کے واقعے سے ایک دن پہلے کی خبر کے مطابق ایک رقاصہ (ڈانسر) کو اس کے گھر کے اندر قتل کر دیا گیا، جو پرائیویٹ پارٹیز میں ڈانس کے پروگرام کیا کرتی تھی۔ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے لیکن اس واقع کے پس پردہ یہ حقیقت بھی آشکارا ہے کہ نجی تقریبات میں ڈانس پارٹی ہمارے معاشرہ میں اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی۔ آپ کسی شادی کی تقریب میں جائیں تو اکثر بیش تر آپ کو موسیقی اور گانے سننے کو ملیں گے، اسی طرح سے شادی کے حوالے سے گھر میں جو دیگر تقریبات منعقد ہوتی ہیں اس میں بھی گھروں کے اندر بھی، ناچ، گانا، عام سی بات ہے۔ شادی کی خوشی میں با آواز بلند گانوں کی ریکارڈنگ اور نصف شب کے بعد محفل موسیقی اور مجرے اب معاشرے میں عام سی باتیں ہیں، ایسے مواقع پر نہ پڑوسیوں کے پریشان ہونے کا اور نہ مریضوں کا خیال رکھا جاتا ہے، البتہ موسیقی کے بے ہنگم شور سے بہت زیادہ متاثر پڑوسی آپس میں ایک دوسرے سے گلا شکوہ کر لیتے ہیں، ڈیفنس کی اس ’’گیٹ ٹوگیدر‘‘ کی طرح ان میں پولیس کو رپورٹ کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ شہر کراچی کے حوالے سے بظاہر یہ معمول کی خبریں ہیں۔
انتخابی ماحول گرم ہو جائے تو پھر دیکھنے والی بات ہوگی کہ بعض سیاسی پارٹیوں کا جلسہ کم اور میوزیکل کنسرٹ زیادہ ہوتا ہے جو اپنے سیاسی مخالفین کو بھی گانے بجانے اور خواتین کو دیکھنے کے شوقین میں جمع کر لیتا ہے۔ خواتین کے گالوں پر پارٹی جھنڈے کی پینٹنگ، ان کی رنگین ٹوپیاں، ایک سے ایک دیدہ زیب لباس، پارٹی ترانوں پر تھرکنے والی، کیمرا مین کی آنکھوں کا ستارہ بننے کے لیے مشتاق یہ خواتین۔ پھر اس طرح کے جلسوں کی کبھی کسی وقفہ کے بغیر اور بعض اوقات طویل دورانیہ پر مبنی براہ راست مختلف ٹیلی وژن چینلوں کی نشریات کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اس کے ساتھ اسی حوالے سے ٹی وی چینلوں پر آنے والے وہ بے ہودہ اشتہارات جن میں ڈانس اور گانوں کے ذریعہ ’’پرڈکٹس‘‘ کی تشہیر کی جاتی ہے، اگر ان سب کو باہم ملا دیا جائے تو معاشرے کی ایک واضح تصویر ہمارے سامنے آتی ہے کہ آخر اس سب سے ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں؟ حقیقی عوامل کیا ہیں جو ہمارے معاشرے کو ایسی سمت میں لے کر جا رہے ہیں؟، جہاں جا کر ہمارا سراسر نقصان اور خسا رہ ہی ہے۔ اگر نجی تقریبات میں رقص، اسکول میں نیم برہنہ کپل ڈانس، شادی کی تقریبات میں ناچ گانا، سیاسی جلسوں میں خواتین کی بے جا نمائش، ٹیلی وژن کے اشتہارات میں ناچ گانا، ان سب خبروں اور تفصیلات کو اگر باہم جوڑا جائے تو ان سب کا آپس میں ربط تلاش کرنے میں ہمیں کسی دقت کا سامنا نہیں ہوگا، ان سب کا نتیجہ اور وجہ ایک ہی ہمارے سامنے آئے گی کہ مغربی تہذیب ہمارے گھروں میں داخل ہو کر غیر اعلانیہ ہم پر حاوی ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں ’’نور مقدم‘‘ جیسے المیے جنم لیتے ہیں۔
دین اور دنیا میں تقسیم ہمارے معاشرے کی ناقابل تردیدحقیقت بن گئی ہے۔ اس وقت ہم بحیثیت قوم لا تعداد مسائل سے دو چار ہیں، لہٰذا ہمیں سیرت نبوی کو ایک مرتبہ پھر اس نظر سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے، خصوصاً اس حدیث کے حوالے سے اپنے رویوں کا جائزہ لیں، تاکہ سیرت نبوی کی روشنی میں ہم اپنا نظریہ درست کرکے اپنا کردار ادا کر سکیں اور عذاب الٰہی سے بچ سکیں اور دین اور دنیا میں کامیاب ہو سکیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’بے شک اللہ تعالیٰ عوام کو خاص لوگوں کے برے اعمال کے سبب سے عذاب نہیں دیتا جب تک کہ وہ (عوام) اپنے درمیان برائی کو کھلے عام پائیں اور اْس کو روکنے پر قادر ہونے کے باوجود نہ روکیں۔ لہٰذا جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ خاص و عام سب لوگوں کو (بلا امتیاز) عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے‘‘۔