ہجرت کے چوتھے سال رسول اکرمؐ کو اطلاع ملی قریش مکہ عرب کے تمام کفار اور اپنے حلیفوں کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کا ارادہ رکھتے ہیں اور مدینہ کے بعض یہود کو بھی انہوں نے اپنے ساتھ ملا لیا ہے ان کے لشکر کی ممکنہ تعداد 20 سے 24ہزار ہوسکتی ہے اس وقت مدینے میں کل آبادی ہی چھے ہزار تھی جو لوگ رسول اکرمؐ کے ساتھ کفار کے مقابلے کے لیے تیار ہوئے کل تین ہزار تھے۔ مدینہ کو بچانے اور حملہ آوروں کو شہر میں داخلے سے روکنے کے لیے خندق کھودنے کا فیصلہ کیا گیا جس کا مشورہ سیدنا سلمان فارسیؓ نے دیا تھا چنانچہ آپؐ نے خندق کی لمبائی اور چوڑائی تقسیم کرکے ایک ایک جگہ دس صحابہ کی ڈیوٹی لگائی، سیدنا براء بن عازبؓ فرماتے ہیں جس جگہ ہماری ذمے داری تھی وہاں دوران کھدائی ایک سخت چٹان ظاہر ہوئی جو ٹوٹنے کا نام نہیں لیتی تھی بلکہ کدال کی دھار ٹوٹ جاتی ہم نے طے کیا اس پر وقت ضائع کرنے کے بجائے رسول اکرمؐ کے ساتھ مشاورت کے بعد اس چٹان کو اسی طرح چھوڑ کر دائیں بائیں ہو کر کھدائی کرلیں جب ہم نے رسول اکرمؐ کو ماجرا سنایا توآپؐ نے فرمایا: میں خود گڑھے میں اتر کر اپنے ہاتھ سے اس چٹان کو ریزہ ریزہ کردوں گا۔ آپؐ گڑھے میں اترے کدال کو بلند کیا اور بسم اللہ پڑھی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور زور دار انداز میں کدال کو چٹان پر مارا ہم نے دیکھا ایک بجلی سے چمکی اور آپؐ نے فرمایا: میرے اللہ نے ملک فارس کی چابیاں مجھے دے دیں، میں کسریٰ کے محل قصر ابیض کو اسی جگہ سے دیکھ رہا ہوں۔ دوبارہ بسم اللہ پڑھ کر تکبیر کا نعرہ بلند کر کے کدال ماری تو بجلی کوندی ان دو دفعہ میں دو تہائی چٹان ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگئی آپؐ نے فرمایا میرے اللہ نے مجھے ملک شام کی چابیاں دے دی ہیں میں شام کے سرخ محلات کو ابھی اسی جگہ سے دیکھ رہاہوں۔
اس زمانے میں فلسطین ملک شام کا حصہ تھا شام ایک وسیع اور سرسبز و شاداب سلطنت تھی رسول اکرمؐ کی اس زبردست پیش گوئی کو عملی جامہ پہنانے کا اعزاز خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ کو حاصل ہوا جب آپؓ خلیفہ ہوئے تو ملک فارس اور شام پر وسیع تر حملوں کا پروگرام تشکیل دیا تاکہ وہاں کے رہنے والوں کو ظالم و جابر بادشاہوں کے مظالم سے نجات دلا کر اسلام کے پرچم امن کے سائے تلے لے آئیں خالد بن ولیدؓ اور ابوعبیدہ بن جراحؓ ملک شام کو فتح کرتے ہوئے بیت المقدس تک جا پہنچے وہاں کے حکمران نے بات چیت کی تاکہ صلح کا راستہ نکالاجائے اس نے یہ تجویز رکھی کہ اگر مسلمانوں کا خلیفہ خود آکر صلح کی دستاویز پر دستخط کرے تو ہم صلح کے لیے تیار ہیں چنانچہ سیدنا عمرؓ نے کبار صحابہ کرامؓ کے ساتھ مشاورت کے بعد بیت المقدس جانے کا ارادہ کیا۔ روانگی کا پروگرام اسی طرح ترتیب دیا کہ سواری کے لیے ایک اونٹ رفاقت سفر کے لیے ایک غلام جس کا نام اسلم تھا کو ساتھ لیا سفرکی خوراک کے لیے ستوئوں کا ایک تھیلہ اسے گھولنے کے لیے لکڑی کا ایک پیالہ یہ کل زاد سفر کا سامان تھا جولباس زیب تن کیا اس میں چودہ پیوند لگے ہوئے تھے پگڑی پھٹی ہوئی جوتیاں ٹوٹی ہوئی 22½ لاکھ مربع میل ریاست کا حاکم ایک شان بے نیازی کے ساتھ سفر پر روانہ ہوا۔ یہ طے کیا کہ ایک آدمی اونٹ پر سوار ہوگا دوسرار اونٹ کی مہار پکڑ کر پیدل چلے گا جب پیدل چلنے والا تھک جائے گا تو وہ سوار ہوگا اور اونٹ پر بیٹھنے والا اتر کر پیدل چلے گا اس طرح سفر کرتے کرتے بیت المقدس کی حدودمیں داخل ہوگئے۔ لشکر اسلام کو حکم تھا کہ کوئی استقبال کے لیے نہیں آئے گا خلیفہ المسلمین از خود بیت المقدس کی حدود میں داخل ہوئے تو غلام سوار تھا اور خلیفہ المسلمین پیدل یہودیوں کے ربی اور عیسائیوں کے پوپ چھت سے نظارہ کررہے تھے یہودیوں نے اپنی کتاب تورات اور عیسائیوں نے اپنی کتاب انجیل کھول رکھی تھی دونوں کبھی کتاب کو دیکھتے کبھی سوار کو آخر لشکر اسلام کے سپہ سالار ابوعبیدہؓ سے پوچھتے ہیں کہ خلیفہ کہاں ہے انہوں نے بتایا اس وقت خلیفہ اونٹ کی مہار تھامے پیدل چل رہا ہے اور غلام سوار ہے۔ انہوں نے بادشاہ وقت سے مشاورت کے بعد بیت المقدس کی چابیاں خلیفہ کے حوالے کرتے ہوئے کہا تورات و انجیل میں آپ کے اوصاف موجود ہیں اور تحریر ہے کہ ایسے شخص کو کوئی شکست نہیں دے سکے گا وہ فاتح عالم ہوگا۔ خلیفہ المسلمین نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر دو نفل ادا کیے اس موقع پر عیسائیوں اور القدس میں آباد تمام قوموں کو مکمل امان دی گئی برس ہابرس تک القدس مسلم حکمرانوں کے کنٹرول میں رہا۔
جنگ عظیم اوّل کے بعد برطانیہ کے وزیر خارجہ نے 1917ء کو اعلان بالفور کیا جس میں کہا گیا کہ برطانیہ فلسطین کی سرزمین پر یہودی ریاست قائم کرے گا اس وجہ یہ بنی کہ ایک یہودی سائنسدان ڈاکٹر وزمین نے دھماکہ کرنے والا کیمیکل ایجاد کرکے برطانیہ کو اس شرط پر دیا کہ وہ یہودی ریاست قائم کرکے دے گا اسی پس منظر میں 2نومبر 1917 کو یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ پھر 1948 کو یہودی ریاست کے لیے زمین کی تقسیم کچھ اس طرح سے کرنے کی پلاننگ کی گئی کہ 53فی صد علاقہ فلسطینیوں کا اور 47فی صد علاقہ یہودیوں کا ہوگا۔ لیکن یہوود نے اپنی ہٹ دھرمی اور جارحیت کے ذریعے 70فی صد علاقے پر قبضہ کرلیا جس طرح تقسیم ہند کے وقت کشمیر اور بعض دیگر علاقوں پر انڈیا نے جبراً قبضہ کرلیا تھا پوری دنیا میں اسرائیل وہ واحد ریاست ہے جس کی بنیاد دھونس دھاندلی غنڈہ گردی پر قائم ہوئی اس کا منشور فلسطین اور دیگر عرب ممالک کے علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کرنا ہے جس وقت اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تو برطانیہ کے ایک رکن پارلیمنٹ نے کہا ہے تعجب ہے ایک ملک دوسرے لوگوں کی زمین تیسرے فرد کو دے رہا ہے زمین کی ملکیت فلسطینیوں کی ہے جبکہ برطانیہ یہ اسرائیلیوں کو دے رہا ہے۔
اسرائیل نے جارحیت کے ذریعے پہلے 1949ء میں فلسطین، شام، لبنان، عراق، مصر، اردن پر قبضہ کیا پھر 1956 میں اسرائیل نے دوبارہ جارحیت کی اس دور کی دو بڑی طاقتوں فرانس اور برطانیہ نے اسرائیل کی سرپرستی کی یو این او کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف ایک قرارداد منظورکی مگر فرانس ور برطانیہ نے اسے ویٹو کردیا پھر جون 1967ء مصر کے علاقے طور سینا شام کے علاقے گولان کی پہاڑیوں
اور اردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا اور بیت المقدس کو دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا علامہ اقبال نے اقوام متحدہ کے جنم دن پرکہا تھا کفن چوروں نے قبروں کی تقسیم کے لیے ایک انجمن بنائی ہے، اسرئیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا سلسلہ جاری ہے۔ یہودی اقوام نے سانپ کو اپنا قومی نشان قرار دیتے ہوئے اسرائیل کی قومی اسمبلی کی عمارت پر سانپ کا سر بنایا ہوا ہے اس عمارت کی پیشانی پر یہ عبارت جلی حروف سے لکھی ہوئی ہے اسرائیل مابین الفرات و النیل اسرائیل کا رقبہ دریائے نیل اور فرات کے درمیانی علاقوں پر مشتمل ہے۔ گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مصر، اردن، شام، عراق کے بہت سے علاقوں کے ساتھ ساتھ مدینہ منورہ اور خیبر کو بھی شامل کیا گیا ہے اور یہود کا یہ نعرہ ہے کہ تیسری جنگ عظیم کے بعد 21ویں صدی میں گریٹر اسرائیل معرض وجود میں آئے گا۔ یہ جنگ مشرق وسطیٰ میں ہوگی یہودی اس جنگ کو ام المحارب کا نام دیتے ہیں یعنی جنگوں کی ماں۔
اسرائیل نے گزشتہ 72سال سے فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے آئے دن یہودی بستیاں آباد کی جارہی ہیں فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے لیکن یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ مسلم حکمران اپنی حکومتوں کے چھن جانے کے خوف سے چپ سادھے ہوئے ہیں اور دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ بزدلی اور موت کا خوف تمام نامرادیوں کی جڑ ہے۔ مسلم عرب حکمرانوں کی اس بزدلی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی صدر نے صدی ڈیل کے نام سے 2020ء کو ایک معاہدہ کیا اس طرح کا یکطرفہ معاہدہ دنیا کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اس معاہدے کو امن منصوبہ کا نام دیا گیا حیران کن بات یہ ہے کہ اس معاہدے میں اہل فلسطین کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا اس کا بنیادی مقصد وسیع تر صہیونی ریاست کا قیام عربوں سے اسرائیل کو تسلیم کرانا تھا۔ منصوبے کے مندرجات کے مطابق اہل فلسطین کو اپنے دیس میں واپس آنے کا کوئی حق نہیں وہ اردن اور مصر میں آباد ہوں گے۔ جدید فلسطینی ریاست کا دفاع اسرائیل کی ذمے داری ہوگی جبکہ اس کے سالانہ اخراجات 30کروڑ ڈالر فلسطین متحدہ عرب امارات کے تعاون سے ادا کرے گا۔
حماس اور اسلامی جہاد تنظیم کے ملٹری بازو القدس برگیڈ کو غیر مسلح کیا جائے گا بیرون ملک فلسطین کی تمام تر تجارت مصر اور اسرائیل کے ذریعے ہوگی جس کی پیشگی منظوری اسرائیلی حکومت سے لینی ہوگی۔
جتنے بھی ہم سفر ہیں قزاق شہر ہیں
پہنچے گا منزلوں پر کوئی کاررواں نہ اب
ٹرمپ کے دبائو کی وجہ سے تھوڑے عرصے میں اسلامی ممالک سوڈان، عرب امارات، بحرین اور قطر نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ان ممالک کو یہ جھانسا دیا گیا کہ انہیں دہشت گردی کی فہرست سے نکالا جائے گا حالانکہ یہ سب جھوٹ ہے۔ ایک فلسطینی اسکالر نے قبضہ فلسطین کا نوحہ کچھ اس طرح پڑھا ہے۔
تیری شہادت پہ اے میری مادر وادی
کب سے ہم اذیتوں کے پل صراط پر محو سفر ہیں
الم زیست سے لب چور حلق ہیں چھلنی
اکھڑتی سانسیں حرام ہے لطف و سعادت لذت کام و دہن
کبھی تو وہ پل بھی آئے گا جب ہم زندگی کی مسرتیں پائیں گے
اپنا وطن تار عنکبوت سے آزاد کرائیں گے
برہنہ پائوں ہیں اپنے پھر بھی اسے
بیڑیوں سے آزاد کرائیں گے
تیرہ شبی سے اجالے سے لائیں گے
ہمارا عزم جواں گرم لہو کی صورت میں بہے گا
اے القدس کے باسی جاگ ذرا
صبر ضبط کے بندھن کو توڑ دے
اکھاڑ پھینک دشمن کے تمام قلعوں کو
ان کی ساری جڑوں کو نکال دے
اے القدس کے نگہبان جاگ ذرا
سرزمین القدس صلاح الدین ایوبی کو پکار رہی ہے وہ مسلم حکمران جو آج صرف عہد ماضی کا فسانہ ہیں ان سے کوئی امید نہیں کی جاسکتی البتہ امت مسلمہ اگر بیدار ہوجائے تو آزادی قبلہ اول کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔
سن اے غافل صدرا میری یہ ایسی چیز ہے جس کو
وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں
یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوب فطرت ہے
جو ہے راہ عمل میں گامزن وہ محبوب فطرت ہے