جیل والا ایوان صدر میں کیوں ہوتا ہے؟

887

صدر پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی نے عجیب بات کہہ دی۔ ایک بات میں تو وہ ملک کے عام آدمی کے برابر ٹھیرے ہیں دوسری بات میں وہ سابق صدر آصف زرداری کے برابر ٹھیرے۔ عوام کے برابر ہو کر کہتے ہیں کہ یقین نہیں کہ انتخابات جنوری میں ہوں گے۔ اور آصف زرداری کے برابر ہونے والی بات یہ ہے کہ اگر میں صدر نہیں ہوتا تو جیل میں ہوتا۔ آصف زرداری صاحب جب تک جیل میں تھے صدر نہیں تھے اور جب سے صدر بنے اور سابق صدر بنے جیل نہیں گئے۔ ڈاکٹر عاف علوی صاحب خوش قسمت ہیں وہ اپنے کیلنڈر میں 9 مئی تلاش کریں اس میں 9 مئی نہیں ملے گا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی بات سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جسے جیل میں ہونا چاہیے وہ صدر کیوں بن جاتا ہے۔ صدر صاحب کے بیان پر عوام میں بہرحال خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کہ ان کی طرح صدر مملکت کو بھی کسی بات کا یقین نہیں ہے۔ عوام کو بھی کسی بات کا یقین نہیں ہے اور کسی بات پر یقین کرلیں تو یقینی طور پر وہ غلط ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کو ایوب خان سے جنرل پرویز تک، بھٹو صاحب سے عمران خان تک بشمول نواز شریف، بے نظیر وغیرہ سب نے ناقابل تسخیر، ایشیا کا ٹائیگر، دنیا کا سب سے عظیم ملک بنانے کا اعلان کیا اور عوام نے ہر ایک کی بات پر یقین کیا لیکن اب انہیں کسی کی بات پر یقین نہیں آتا یا وہ یقین کرنا نہیں چاہتے۔ البتہ صدر عارف علوی کی دونوں باتوں پر ہمیں یقین ہے کہ ایک تو انہیں انتخابات کے بارے میں یقین نہیں اور یہ یقین ہے کہ صدر نہ ہوتے تو جیل میں ہوتے۔

یہ سوال قوم کس سے پوچھے کہ جس کو جیل میں ہونا چاہیے تھا وہ ایوان صدر میں کیا کررہا ہوتا ہے اور جس کو کچھ نہیں پتا ہوتا وہ وہاں کیوں ہوتا ہے جہاں اسے سب کچھ پتا ہونا چاہیے لوگ جانتے تو یہ بھی ہیں کہ یہ سوال کس سے پوچھا جائے لیکن پوچھتے اس لیے نہیں کہ ان کا پتا پھر کس سے پوچھا جائے گا۔ جناب صدر نے پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب کی بے توقیری کے بارے میں بتایا کہ الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر انتخابات کرانے کا معاملہ حل کرنے کی تجویز دی تو جواب آیا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ پھر پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن کے لیے الیکشن کمشنر کو بلایا اور وہ نہیں آئے۔ پھر میں نے وزیر قانون کو بلایا تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ آپ کا یہ حق نہیں۔ ان باتوں کے باوجود وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر میں اپنا عہدہ چھوڑدوں تو یہ پاکستان کے لیے نامناسب ہے۔ پتا نہیں وہ یہ کیوں سمجھ رہے ہیں کہ ان کے عہدے پر موجود رہنے سے پاکستان کے لیے کوئی مناسب صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ البتہ اپنے انٹرویو کے آخر میں وہ یہ کہہ گئے کہ ہمیشہ سے توڑ پھوڑ کے خلاف ہوں۔ 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی تھی۔ یعنی انہوں نے منصب پر برقرار رہنے کی وجہ بھی بتادی۔ اور سب سے بڑھ کر آصف زرداری سے مماثلت کا بھی ذکر کردیا کہ میں آصف زرداری کے نعرے پاکستان کھپے کو ہمیشہ سراہوں گا۔ اتنی ساری باتیں انہوں نے کہہ ڈالیں پھر بھی بتارہے تھے کہ ملک جمہوریت کے راستے پر آگیا ہے۔ موجودہ چیف جسٹس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں نے نہیں بھیجا تھا۔ وزیراعظم ہائوس سے آیا تھا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم نے بھی انکار کردیا کہ ریفرنس انہوں نے بھیجا ہے۔ پھر بھی اس جمہوریت کی خاطر وہ ایوان صدر میں الیکشن کمشنر، وزیر قانون وغیرہ کی بدتمیزی برداشت کررہے ہیں۔ جمہوریت کی خاطر میاں نواز شریف ملک سے چلے گئے۔ پھر اسی ماہ ملک واپس آگئے۔ آصف زرداری ملک سے چلے گئے پھر واپس آگئے۔ اب عمران خان جمہوریت کی خاطر جیل میں ہیں اور کون جانے کسی دن وہ بھی واپس آجائیں۔ بس قوم کی مشکل یہ ہے کہ جس چیز یعنی جمہوریت کی خاطر یہ سب لوگ قربانیاں دیتے ہیں وہ اس ملک میں نہیں آتی یہی لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، جمہوریت کیوں نہیں آتی۔ یہ سوال پھر اسی سوال کی طرح ہے کہ جیل میں جس کو ہونا تھا وہ ایوان صدر میں کیوں ہوتا ہے اس سوال کا تازہ ترین جواب قوم کو 21 اکتوبر کو 21 توپوں کی سلامی کے ساتھ مینار پاکستان کے سائے تلے مل گیا۔

اس صورت حال میں لوگ پوچھتے ہیں کہ پھر کیا راستہ اختیار کیا جائے۔ بس خرابی یہیں سے آتی ہے۔ ہم ملک سنوارنے کی ذمے داری اور راستہ تلاش کرنے کا کام انہیں دیتے ہیں جو ملک بگاڑنے کے ذمے دار ہیں۔ ہر شعبے میں غلط فرد کا تقرر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ شعبہ ترقی کرے۔ سب سے بڑھ کر عوام اپنے دائروں سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ بار بار ان ہی لوگوں اور بیانیوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں جو اس ملک کی تباہی کے اصل ذمے دار ہیں۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ امین اور اہل لوگوں کو منصب سے ہٹا دیا جائے گا اور نااہل اور خائن ایوان اقتدار میں ہوں گے۔ مالدار لوگ کنجوسی کریں گے اور لوگ اپنے بھائیوں کو دھوکا دیں گے۔ تو ہمیں اپنے ملک میں کیا نظر آتا ہے۔ سب کچھ دیکھنے کے باوجود بھی قوم کسی ایک کے پیچھے چل رہی ہوتی ہے۔ جسے جیل جانا ہو وہ ایوان صدر میں کیوں ہوتا ہے کے بارے میں ایک پرانا لطیفہ ہے لیکن بالکل درست چسپاں ہوتا ہے۔ بھارت میں ایک سیاسی لیڈر کو گرفتار کرلیا گیا کہ اس نے سرکار کو چور کہا تھا۔ اس کو جب عدالت میں لایا گیا تو سیاسی رہنما نے سیاسی پینترا بدلا اور کہا کہ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ سرکار چور ہے۔ میں نے یہ کب کہا تھا کہ ہند کی سرکار چور ہے۔ اس پر جج نے استغاثہ کی طرف دیکھا تو ان کے وکیل اور پولیس والوں نے کہا کہ زیادہ ہوشیار مت بنو سارا ملک جانتا ہے کہ کون سی سرکار چور ہے۔ تم نے ہند کی سرکار ہی کو چور کہا تھا۔ اور بے چارے کو چھے ماہ کی سزا ہوگئی۔ تو اب لوگ خود ہی بتائیں کہ صدر عارف علوی کی باتوں پر یقین کیوں نہ کیا جائے۔ ان باتوں کے علاوہ ایک دن صدر صاحب کہنے لگے کہ فلسطین کی صورت حال دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ صدر صاحب جب نئے نئے صدر بنے تو انہوں نے ہمارا فون سننا چھوڑ دیا تھا تو ہم نے ان کو پیغام میں کہا تھا کہ آپ کے سابق صدر بننے میں زیادہ دن نہیں ہیں پھر بات کریں گے۔ اب وہ ان شاء اللہ ملیں گے تو ان کو یاد دلائیں گے کہ ان کی کن کن باتوں اور اقدامات پر قوم کی آنکھوں میں آنسو آئے اور کون کون سے دعوئوں پر ہنس ہنس کر قوم کی آنکھوں میں آنسو آئے۔ یہ بات ہم سے زیادہ ڈاکٹر صاحب جانتے ہوں گے کہ دانتوں میں کیڑا لگتا ہے اور توجہ نہ دی جائے تو اس وقت پتا چلتا ہے جب دانت نکالنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ تو جس نظام کو وہ جمہوریت کہہ رہے ہیں اس کی جڑوں تک جھوٹ، دھوکے، جعلسازی، دھونس دھاندلی کا کیڑا لگ چکا ہے۔