جب بھارت نے کشمیر میں فوج اتاری

869

آج سے 74 سال قبل 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی حکومت نے اپنی فوجیں کشمیر کی سرزمین پر اُتاریں۔ اس دن سے لے کر آج تک ہر روز بھارت نے کشمیریوں پر ظلم وتشدد کی نئی داستانیں رقم کیں۔ ان سات دہائیوں  میں کشمیریوں کو بدترین ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایاگیا لیکن کشمیریوں نے ان کے ظلم کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ بھارتی افواج کے ظلم کے آگے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اگست 1947 میں کشمیر کے مہاراجا نے حکومت ِ پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت ان انتظامات کو جو ریاست اور برطانوی حکومت کے مابین تھے ریاست اور پاکستان کے مابین برقرار رکھا گیا۔ اس معاہدے کی پیشکش بھارت کو بھی کی گئی لیکن اس نے جواب نہ دیا جبکہ پاکستان نے رضا مندی کا اظہار کیا اور اس طرح کشمیر کے دفاع، ڈاک اور کرنسی کے معاملات پاکستان کے سپرد ہوگئے۔ مہاراجا اس وقت پہلے سے ہی ریاست کے اندر اپنے خلاف ایک تحریک کا سامنا کررہا تھا۔ جیمز ڈی ہاہولی (James D Howley) نے اپنے ایک آرٹیکل جو Dickinson Journal of International Law میں شائع ہوا، میں لکھا تھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے مہاراجا کو خط میں کہا کہ کشمیر میں باغیوں کو نکالنے کے بعد جیسے ہی حالات معمول پر آجائیں تو یہاں کا مسئلہ لوگوں کی مرضی کے مطابق حل کروایا جائے۔ 2نومبر 1947 میں ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو نے بھی کہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کیا جائے گا۔ 5اگست 2019 میں بھارت نے مزید آگے بڑھتے ہوئے اپنے آئین میں تبدیلی کی اور اس متنازع علاقے کی حیثیت تبدیل کرکے یہاں مسلم آبادی کو ہندوئوں کی آباد کاری سے کم کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔ ڈومیسائل قانون کے تحت بھارتی حکومت نے 41.05 لاکھ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ اپنی مرضی کے لوگوں کو جاری کیے ہیں تاکہ وہ اس علاقے کی مسلم اکثریت کو ہندو اکثریت میں تبدیل کرسکے۔ 1991سے تقریباً 9لاکھ بھارتی فوجی کشمیر میں موجود ہیں۔ امریکا کے Magazine Harper’s کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر میں ڈاکٹروں کا تناسب ایک ڈاکٹر 3,060 مریضوں کے لیے جبکہ فوجیوں کا تناسب سات کشمیریوں کے لیے ایک فوجی ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والے ڈوزیئر کے مطابق کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں 96,000 ماورائے عدالت قتل، تقریباً 162000 افراد کی غیر قانونی گرفتاریاں اور ان پر تشدد، 25,000 سے زائد افراد پیلٹ گن سے زخمی، 23000 عورتیں بیوہ جبکہ108000 بچے یتیم ہوئے۔

بھارت کی اس ہندوتوا حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں معلومات کے ذرائع تک بند کر رکھے ہیں۔ کشمیریوں کو سوشل میڈیا یہاں تک کہ انٹر نیٹ کی سہولت تک سے محروم رکھا گیا ہے۔ Stand With Kashmir کی ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں 2017 سے فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام اور دوسرے میڈیا پر کشمیر سے متعلق کوئی مواد شائع یا نشر نہیں ہونے دیا جاتا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ انڈیا 129 ممالک میں سب سے زیادہ انٹر نیٹ بند کرنے والا ملک ہے۔ UNOffice of the High Commissioner For Human Rights (OHCHR) کے تین سال کے ڈیٹا کے مطابق بھارتی فوج نے کشمیر میں کم ازکم 782 آپریشن کیے جن میں متعدد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ 802 عام لوگوں کی املاک کو بھی تباہ کیا گیا۔ یہ توڑ پھوڑ کووڈ19 کے لاک ڈائون کے دوران زیادہ کی گئی۔ سری نگر سے تعلق رکھنے والی ایک تجارتی تنظیم نے بتایا ہے کہ صرف گیارہ مہینوں کے لاک ڈائون سے مقامی تاجروں کو تقریباً 70,000 کروڑ کا نقصان ہوا۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل (A1) کی 2011 کی ایک رپورٹ کے مطابق سیکڑوں کشمیریوں کو بغیر کسی جرم کے جیل میں ڈالا گیا ہے۔ بہت سے لاپتا افراد کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں مارکر دفن کردیا گیا ہے۔ وہاں کے لوگوں پر تشدد کا ایک طریقہ ان کی عورتوں کی عصمت دری ہے جو وہاں بڑے پیمانے پر روزانہ بھارتی فوج کرتی ہے۔

آل پارٹیز حریت کانفرنس کے اعداد وشمار کے مطابق جموں کشمیر میں 1989 سے لے کر اب تک 11,144 عورتوں کی آبروریزی کی جا چکی ہے۔ یہ اعداد وشمار دنیا کے کسی بھی متنازع علاقے میں سب سے زیادہ ہیں۔ کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے بھارتی فوجیوں نے تقریباً500 اہم کشمیری رہنمائوں کو قید میں رکھا ہوا ہے یا گھروں میں نظر بند کیا ہوا ہے۔ ان رہنمائوں کو کوئی بھی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ ان کی بیماری کی صورت میں انہیں ڈاکٹرز تک پہنچنے نہیں دیا جاتا۔ حال ہی میں معروف کشمیری رہنما سید علی گیلانی کی وفات پر ان کے اہلِ خانہ کو ان کی وصیت کے مطابق تجہیز و تکفین کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ بھارت کی یہ خام خیالی ہے کہ وہ کشمیری مجاہدین کی 74 سالہ آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی کہہ کر روک سکے گا۔ یہ جدوجہد ہر آنے والے دن میں برہان وانی اور ریاض نیکو جیسے نوجوانوں کی شہادت سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ بھارت خود ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہے۔ ماورائے عدالت قتل، عورتوں کی بے حرمتی، جبری گمشدگی، املاک کی تباہی رہنمائوں کی گرفتاری اور پیلٹ گنوں کا استعمال بھی کشمیریوں کی جدوجہد ِ آزادی کو متزلزل نہیں کرسکتا۔