امریکی بابا چالیس چور

904

جوں جوں اسرائیل کی درندگی میں اضافہ ہو رہا ہے مسلم ممالک کے زبانی جمع خرچ میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے، اگر امت مسلمہ اسرائیل کی جنگ میں مصر کی عملی مدد کرتے تو امریکا کا سفید محل 1973 میں اسرائیل کا قبرستان بن گیا ہوتا، اس تناظر میں ہمیں علی بابا کے چالیس چور یاد آرہے ہیں، کیونکہ موجودہ صورت حال میں امریکی بابا چالیس اسلامی ممالک کا سرغنہ بنا ہوا ہے، امریکا اسرائیل کی پشت پناہی نہ کرتا تو وہ اپنی پیٹھ سہلا رہا ہوتا۔
اسرائیل اور بھارت میں کئی اقدار مشترک ہیں دونوں بزدل ہیں، کمزور سے جینے کا حق چھیننا ان کا مقصد حیات ہے، دونوں امریکا کے پروردہ ہیں، فلسطینیوں پر اسرائیل کی درندگی کی مذمت سبھی کررہے ہیں، فلسطین کی حمایت میں امریکا اور برطانیہ کے شہری بھی احتجاج کررہے ہیں، اس کے باوجود امریکا اور برطانیہ اسرائیل کی ہر ممکن مدد کررہے ہیں، مسلم ممالک بھی اسرائیل کی مذمت کررہے ہیں، اس کی بمباری کو فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دے رہے ہیں، گویا زبانی جمع خرچ میں مسلمان بھی کسی سے کم نہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں اور مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟
کہا جاتا ہے کہ جب کسی مسلمان کو چوٹ لگتی ہے تو اس کا درد دوسرے مسلمان کو بھی ہوتا ہے، کشمیریوں اور فلسطینیوں کی تکلیف پر دوسرے مسلمانوں کو درد کا احساس کیوں نہیں ہوتا، شاید امت مسلمہ درد کے احساس سے محروم ہو چکی ہے۔
بھارت اور اسرائیل میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں بھارت بھی پاکستان پر تین جنگیں مسلط کر چکا ہے، بہت سے پاکستانی 1965 اور 1971 کی جنگ سے ہی واقف ہیں، انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ بھارت سے پاکستان کی پہلی جنگ 1948 میں ہوئی تھی، ہماری یونٹ کے خطیب صاحب 1948 میں ریاست ِ سچن گجرات میں مفتی اعظم تھے، جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے کیپٹن کو شہید لکھا گیا تو انہوں نے فتویٰ دیا تھا کہ کیپٹن کو شہید نہیں لکھا اور کہا جاسکتا، اسے نثارِ وطن کہا اور لکھا جائے، فتویٰ کی اشاعت کے بعد سردار پٹیل نے بلایا اور کہا مفتی صاحب ہم آپ کی بہت عزت کرتے ہیں، آپ کے فتوے ہمارے لیے باعث افتخار ہیں، مگر کیپٹن کے حوالے سے آپ کے فتوے نے بہت مایوس کیا ہے، کیونکہ پاکستان کے سپاہی بھی اللہ کے لیے نہیں وطن کے لیے لڑے تھے اور شہید کہلاتے ہیں، بھارت کے سپاہی بھی اپنے وطن کے لیے لڑے تھے انہیں شہید کیوں نہیں کہا جاسکتا، دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست کہلاتا ہے مگر وہاں اسلام نہیں ہے اور جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو ہم برملا اسے سیکولر ملک کہتے ہیں، اور سیکولر ملک میں کسی مذہبی عہدے کی ضرورت نہیں ہوتی آپ جس شہر میں کہیں ہم آپ کو وہاں کے کسی کالج میں لیکچرار شپ دے دیں گے اور آپ کی دس پندرہ سالہ موجودہ سروس کو بھی اس میں ضم کر دیں گے، ہم جانتے ہیں کہ آپ پشتو، اردو، فارسی اور عربی میں خاصی مہارت رکھتے ہیں، آپ جس مضمون میں چاہیں لیکچر دے سکتے ہیں، مفتی صاحب نے کہا کہ میں کسی لادینی ملک میں رہنا نہیں چاہتا مجھے پاکستان بھیج دیا جائے، سردار پٹیل نے کہا آپ پاسپورٹ بنوائیں پاکستان چلے جائیں، مگر ہماری خواہش ہے کہ آپ کی خدمات بھارت کے لیے مختص رہیں، مگر مفتی صاحب 1950 میں پاکستان آگئے، ان کی اہلیت اور قابلیت کے مطابق کہیں سروس نہ ملی ان دنوں رینجرز کا محکمہ نیا نیا قائم ہوا تھا سو یہاں حوالدار بھرتی ہو گئے کہ گھر بار چلانے کے لیے ملازمت ضرورت تھی۔
سچن کے نواب پاکستان آئے تو ہجرت کرنے والے اپنے خاندان سے ملنے بہاولنگر بھی آئے، مفتی صاحب سے بھی ملاقات کی، رینجرز کے کرنل کو معلوم ہوا کہ ان کا حوالدار ریاست سچن میں مفتی اعظم کے عہدے پر فائز تھا تو خطیب کے عہدے پر فائز کر دیا۔
اسرائیل اور فلسطین کی جنگ کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ پاکستان حماس کی مدد کے لیے فوج بھیجے گا یا نہیں، اس سوال کے جواب میں ایک بزرگ نے کہا کہ پاکستان حماس کی مدد کے لیے فوج بھیجے گا تو امریکا بابا ناراض ہو جائے گا جس کے متحمل پاکستان کے حکمران نہیں ہو سکتے، غزہ کے ستم رسیدہ لوگوں کے لیے جو غذائی امداد بھیجی جارہی ہے، اس کے بارے میں امریکا بابا نے کہا ہے کہ ایسے اقدامات ضروری ہیں کہ امداد حماس تک نہ پہنچے۔