وحشیوں کا مزید وحشی پن

555

غزہ میں عرب نیشنل اسپتال کو بھی اسرائیلی طیاروں نے نشانہ بنا ڈالا جس میں فلسطینی میڈیا رپورٹ کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعداد 1500 تک ہو چکی ہے۔ یہ جدید دور میں سفاکیت و درندگی کی ایک شرمناک مثال ہے۔ اس بے حسی کو دیکھ کر لفظ ظلم بھی اپنا چہرہ شرم سے چھپا لیتا ہے جو غاصب اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سلطان عبدالحمید کے سامنے ایک یہودی راہنما تھیورڈ ہرزل نے یہودیوں کے لیے بیت المقدس کے نزدیک تھوڑی سی زمین کا مطالبہ کیا تو سلطان نے اس مطالبے کو سختی سے رد کر دیا کیونکہ سلطان یہودی فطرت کو جانتا تھا۔ پھر جب بعد میں کچھ غدار مسلمانوں کی وجہ سے یہودی تل ابیب نامی محلہ بسانے میں کامیاب ہو گئے تو اس کا نتیجہ آج ہم سب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور ہمارے فلسطینی مسلمان کربناک زندگی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ دنیا کا کوئی مذہب، کوئی قانون اور کوئی تہذیب جنگی صورتحال میں اسپتال کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسپتال تو وہ جگہ ہوتی ہے جہاں جسمانی تکلیف میں مبتلا لوگ اپنے درد کا مداوا کرنے آتے ہیں نہ کہ اپنی جانیں بھی گنوانے۔ اسپتالوں میں کون لوگ ہوتے ہیں ڈاکٹرز، اسپتال کا عملہ، مریض مرد و عورت اور بیمار بچے۔ بتائیے! ان میں کون تھا جس سے ان وحشی جانوروں کو خطرہ تھا۔ جو ان کی شہہ رگ پہ خنجر رکھ کر بیٹھا ہوا تھا اور انہوں نے اپنا آپ بچانے کی خاطر اسپتال پر بمباری شروع کر دی۔ ڈاکٹرز یا طبی عملہ تو مسیحا کا روپ ہوتے ہیں۔ یہ تو بغیر کسی مذہبی، نسلی اور تعصبی تفریق کے سب کی جانیں بچانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ دوسروں کا درد دور کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ درندوں نے ان کو بھی شہید کر دیا۔ اصل دہشت گرد تو یہ صہیونی ہیں جن کی ایسی حرکتیں ان کی جدیدیت پر بد نما داغ ہیں۔ ان کی درندگی کے نشانے سے ڈاکٹرز بھی محفوظ نہیں۔ مجھے تو لاہور کا ایک سینئر ڈاکٹر جاوید اقبال کبھی بھی نہیں بھولا جو ایک انتہائی قابل ترین ڈاکٹر ہونے کے باوجود مناواں لاہور کے ایک خیراتی اسپتال میں خدمت انسانیت کا فریضہ انجام دے رہا تھا۔ اس درویش منش انسان کو محض اس لیے قتل کروا دیا گیا، اس پر الزام تھا کہ اس نے طالبان کا علاج کیا ہے اور نفسیاتی امراض کا شکار جنونی صہیونیوں سے یہ برداشت نہ ہو سکا۔

اس اسپتال میں بچے بھی زیر علاج تھے ہاں میں یہ ضرور کہوں گی کہ ان نفسیاتی مریضوں کو مسلمان بچوں سے سب سے زیادہ خوف ہے انہیں خوابوں میں مسلمان بچے ان پر بندوقیں تانے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ ان کی بزدلی کی انتہا ہے کہ وہ مسلمان بچوں سے بھی خوفزدہ ہیں تبھی تو انہیں ختم کر کے اپنے خیال میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہیں۔ حالیہ جنگ میں چند دنوں میں شہید ہونے والے فلسطینی بچوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ اقوام متحدہ کو اسرائیلیوں کی اس شرمناک حرکت پر خود ہی اب تک انہیں پابند سلاسل کر دینا چاہیے تھا لیکن یہ ادارہ تو کہیں نظر ہی نہیں آرہا۔ اگر یہ بڑے پن کا مظاہرہ نہیں کر سکتا تو اس نے چودھراہٹ کی پگڑی کیوں باندھ رکھی ہے؟ کیا اس کی ہمدردیاں صرف قاتلوں اور غنڈوں کے ساتھ ہی ہیں؟۔ یہ ادارہ مسلمانوں پر صرف پابندیاں لگانے کے لیے اور پوری دنیا میں ان پر ہونے والے ظلم و ستم کا تماشا دیکھنے کے لیے ہے؟۔ اسپتال پر اسرائیلی حملے پر کیا واشنگٹن کا بے شرمی والا اتنا بیان ہی کافی ہے کہ وہ اسپتال کو نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات سے آگاہ ہے لیکن اس کی کوئی تفصیلات اس کے پاس نہیں ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس مسلمانوں کے نقصانات کی تفصیلات نہ ہوں۔ پنٹاگون خود ہی تو اسرائیلیوں کی مکمل پشت پناہی کر رہا ہے جس نے اب تک اسرائیل کو فوجی امداد کے ساتھ پانچ سی 17 طیارے بھیجے ہیں۔

اگر عیسائی اور مغربی قوتوں کے اپنے بنائے عالمی قوانین کی روشنی میں بھی دیکھیں تو فلسطینی حق پر ہیں۔ یہ ان پر ناقابل برداشت ظلم ہو رہا ہے۔ ایسے ایسے الم ناک ،کرب و دردناک مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں جنہیں انسانی دل رکھنے والے لوگ دیکھ بھی نہیں سکتے لیکن اللہ تعالیٰ کے ان شیروں کے ساتھ سب کچھ بیت رہا ہے۔ پوری امت مسلمہ کے دل، بلند حوصلہ اور بہادر فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ بیت المقدس ان کے دلوں میں بستا ہے لیکن صد افسوس کہ اس امت مسلمہ کی نمائندگی کرنے والے حکمران وہن اور دجالی محبت کا پیالہ پی کر سکون کی نیند سوئے پڑے ہیں یا پھر ایک آدھا مذمتی بیان دینے پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔ اگر ایک مسلمان ملک بھی شانہ بشانہ لڑنے کے لیے ان مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے تو بزدل یہودی چند دنوں میں ہی فلسطین سے ایسے ہی راہ فرار اختیار کر جائیں گے جیسے امریکی افغانستان کو چھوڑ کر بھاگے تھے۔ بیت المقدس ہمارا قبلہ اوّل ہے، ہماری عزت و وقار کی علامت ہے، ہماری عبادت کا مقدس مقام ہے اور فلسطینی ہمارے وجود کا حصہ ہیں۔ اٹھو مسلمانو! اپنی اپنی بساط کے مطابق ہمت کرو جہاں جس مقام پر ضرورت ہے ڈٹ کر کھڑے ہو جاؤ۔ اپنا قبلہ اوّل اور اپنے مظلوم بھائیوں کو یہودیوں کے ناپاک اور وحشت ناک پنجوں سے آزاد کروا لو۔ اللہ تعالیٰ 313 کو بھی غالب کر دیتا ہے جب وہ خلوص کے ساتھ اور اپنے پاس موجود چند وسائل کے ساتھ میدان میں اتر آتے ہیں۔