ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

835

19 اکتوبر کو نگراں صوبائی وزیر داخلہ سندھ سکرنڈ ضلع نواب شاہ کے نواحی گوٹھ ماڑی جلبانی پہنچے، جہاں انہوں نے مقامی دیہاتیوں سے 27 ستمبر کو پولیس اور رینجرز کے ہاتھوں مارے جانے والے 4 افراد کے قتل پر بے حد اظہارِ افسوس کرتے ہوئے انہیں شہید قرار دیا اور اپنے پہلے بیان پر معافی کے طلب گار بھی ہوئے جس میں انہوں نے جاں بحق ہونے والے دیہاتیوں کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔ اس موقع پر موصوف کے ہمراہ آئی جی سندھ رفعت مختار، ایس ایس پی حیدر رضا، ڈی سی نواب شاہ، زاہد رند اور دیگر اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔ نگراں صوبائی وزیر داخلہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر حارث نواز نے زخمی 4 دیہاتیوں کی بھی عیادت اور ان سے معذرت کی۔ انہوں نے مارے جانے والے 4 دیہاتیوں (جن میں سے 2 سگے بھائی بھی تھے، جن کی چند روز بعد شادی ہونے والی تھی) کے ورثا کے لیے فی کس 80 لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے 20 لاکھ روپے فی کس دینے اور جاں بحق افراد کے لواحقین کی کفالت کا اعلان بھی کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ نگراں وزیر داخلہ کے مذکورہ عمل پر بے ساختہ یہ شعر ذہن میں درآیا جو پتا نہیں برمحل ہے بھی یا نہیں۔

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا

یہ خوب! یعنی 4 بے گناہ افراد اپنی جان سے گئے، گویا 4 خاندان ایک طرح سے اُجڑ گئے۔ 4 بے چارے دیہاتی شدید زخمی ہوئے، پہلے انہیں عجلت میں دہشت گرد اور دہشت گردوں کا ساتھی پولیس اور رینجرز پر حملہ آور قرار دیا گیا اور پھر تقریباً ایک ماہ بعد انہی دہشت گرد قرار دیے جانے والے افراد کو ’’شہید‘‘ مان لیا گیا ہے ’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘۔ واضح رہے کہ شہید قرار دیے جانے والے مذکورہ دیہاتیوں کی پولیس اور رینجرز کے آپریشن میں ہلاکت پر سندھ بھر میں شدید احتجاج ہوا تھا۔ مختلف سیاسی پارٹیوں اور مقتولین کے ورثا کی جانب سے سکرنڈ نوابشاہ قومی شاہراہ بلاک کرکے کئی روز تک دوطرفہ ٹریفک گزرنے کا عمل روک دیا گیا تھا۔ تب حکومت سندھ کے مذکورہ ذمے داران مان کر ہی نہیں دے رہے تھے اور تمام مقتولین اور زخمیوں کو دہشت گرد اور ان کا ساتھی قرار دینے پر تلے ہوئے تھے۔ تاہم اب اس اچانک ماہیت قلب نے جہاں ایک طرف تمام اہل سندھ کو حیران اور پریشان بلکہ ششدر کر ڈالا ہے وہیں اس وقت احتجاج کرنے والوں کے اس موقف پر بھی مہر تصدیق ثبت کر ڈالی ہے کہ تمام مقتولین بے گناہ دیہاتی ہیں۔ ہاں ایک اور بات یہ بھی کہ مذکورہ سانحہ سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے لیے بھی اب ایک عرصے تک ایندھن کا کام دیتا رہے گا اور ان کی سیاست پہلے دہشت گرد اور پھر حکومت ہی کی جانب سے انہیں اپنے سابقہ موقف سے انحراف کرکے شہید قرار دیے جانے پر چمکتی رہے گی۔

اہل سندھ اب بجا طور پر یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ جب مذکورہ دیہاتی شہید قرار دیے جاچکے ہیں تو کیا ان کے قتل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف بھی کوئی کارروائی کی جائے گی کہ نہیں؟ بہرکیف 1990ء کے عشرے میں میجر ارشد جمیل کے ہاتھوں ٹنڈوبہاول میں (نزد حیدر آباد) نصف درجن دیہاتیوں کو گوٹھ میں دوران آپریشن قتل کردینے کے واقعے سے اس سانحہ کو بجا طور پر تشبیہ دی گئی تھی۔ میجر ارشد جمیل بعدازاں مقتولین کی والدہ مائی جندو کے مسلسل احتجاج اور ان کی دو بیٹیوں کی جانب سے ملزمان کو سزا دلانے کے لیے بطور احتجاج خود سوزی کرکے جان دینے کی بنا پر سزائے موت کے حق دار ٹھیرے تھے۔ اب سانحہ ماڑی جلبانی کے ذمے داران کو بھی قرار واقعی سزا مل پائے گی یا نہیں؟ اب اس کا جواب بھی آنے والا وقت ہی دے گا۔

’’آوے کا آوا بگڑنا‘‘ کسی کل کا سیدھا نہ ہونا اور ’’اندھیر نگری چوٹ راج‘‘ کے محاورے درحقیقت ہمارے موجودہ اور سابق تمام حکمرانوں ہی کے لیے صادق آتے ہیں۔ اب خواہ وہ وفاقی حکمران ہوں یا پھر صوبائی حکمران، آج کل سندھ بھر میں چاول کے کاشت کار فصل کے بہت کم نرخ ملنے پر احتجاج کررہے ہیں۔ فصل تیار ہونے کے بعد چاول کے آبادگاروں کے چہروں پر بجائے مسرت کے غم اور اداسی کی پرچھائیں نظر آتی ہے۔ آبادگاروں کا کہنا ہے کہ سخت ترین محنت، کھاد، زرعی کیڑے مار ادویات اور دیگر بہت سارے اخراجات کرنے کے بعد جب چاول کی فصل تیار ہوئی ہے تو ان کا کارخانے دار رائس ملرز، آڑھتی کھلے عام استحصال کرنے میں لگ گئے۔ فصل پر آنے والی لاگت کے مقابلے میں انہیں بہت کم پیسے دیے جارہے ہیں۔ انتظامیہ بے حسی کے ساتھ سارا منظر دیکھ رہی ہے۔ بے چارے آبادگاروں کے درد کا داماں کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ جب فصل کاشت ہورہی تھی تب چاولوں کا نرخ 5000 روپے تا 4800 روپے فی من مقرر کیا گیا تھا لیکن سعی بسیار اور بھاری اخراجات کے جب فصل تیار ہوئی ہے تو چاول کی فی من قیمت 2200 روپے تا 3000 روپے فی من دی جارہی ہے جو آبادگار طبقہ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کے مترادف ہے۔ ایسے حالات میں آئندہ پھر کون چاول کی فصل کاشت کرنے کا سوچے گا؟ ظاہر ہے اس صورت میں چاول کا بحران ہی جنم لے گا۔ لیکن کون توجہ دے؟ سب لاتعلق بنے ہوئے ہیں۔