روس کا عالمی سیاست اور معیشت میں مقام 2

903

عالمی سیاست اور طاقت کے حصول کی منصوبہ بندی میں روس کو اہم مقام حاصل ہے۔ عالمی پائیدار امن کے حصول کے لیے یہ عمل نہایت اہم اور ضروری ہے کہ طاقت کا توازن صرف ایک ملک کے ہاتھ میں نہ ہو اور صرف ایک ملک ہی دنیا کے سیاہ و سفید کا مالک نہ ہو بلکہ دنیا کثیر القطبی ہو۔ دنیا میں طاقت کے توازن میں اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ امریکا اور یورپ اب اپنے عالمی سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بھارت کے محتاج ہیں۔ امریکا اور یورپ نے روس پر جو پابندیاں عائد کی ہیں وہ غیر مؤثر ثابت ہو رہی ہیں اور روس چین کے ساتھ مل کر عالمی سیاست و معیشت میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بالخصوص امریکا اور یورپ ہمالیائی قرضوں کے حجم تلے دبے ہوئے ہیں۔

امریکی قومی قرضوں کا حجم 31 ہزار 6 سو 45 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ امریکا کا فی کس قرضہ 94 ہزار 5 سو 61 ڈالر، جب فی ٹیکس پیئر قرضہ دو لاکھ 46 ہزارڈالر، امریکی بجٹ کا خسارہ ایک ہزار 4 سو 14 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ امریکا کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب مندرجہ ذیل چارٹ میں دیا گیا ہے۔

امریکا کے قرضوں پر 548 ارب 73 کروڑ ڈالر ادا کرنے پڑ رہے ہیں جبکہ مجموعی طور پر تین ہزار 7 سو تین ارب ڈالر سود کی ادائیگی کرنا باقی ہیں۔ یہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ امریکا دنیا کا مقروض ترین ملک ہے اور ہر لمحے اس کے قرضے کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ذیل میں دنیا کے مقروض ترین ممالک کے قرضوں کے اعداد و شمار دیے گئے ہیں۔

اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ امریکا اور اس کے بیش تر مغربی اتحادی قرضوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور دنیا میں امن کے بجائے جنگ اور تفریق کو فروغ دے رہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر ہلاکت آفرین ہتھیاروں کا جھوٹا بہانہ گڑھا گیا اور پھر چھے لاکھ سے زائد عراقیوں کو شہید کر دیا گیا۔ امریکا اور مغرب نے یوکرین کی قیادت کو استعمال کر کے ایک بے معنی اور لا حاصل جنگ کو خطے پر مسلط کر دیا اور روس پر پابندیاں عائد کر دیں جب کہ یہی ممالک بھارت اور اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور ان کی جانب سے انسانیت سوز مظالم نہ صرف خاموش بلکہ اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

مغرب نے یہ محسوس کیا کہ یوکرین کے صدر ایک اداکار ہیں اور بنیادی سیاسی اور عالمی سیاست کی شطرنج کی بساط سے عدم واقف ہیں لہٰذا انہیں استعمال کرتے ہوئے یوکرین کو روس کے خلاف لڑوایا گیا اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے جنگی ماحول پیدا کیا گیا۔

 

قدرتی ذرائع تک رسائی اور سمندری ٹرانسپورٹ کے حوالے سے بحر منجمد شمالی کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ مستقبل قریب میں اسی خطے میں بہت سی معاشی سرگرمیاں متوقع ہیں۔ بحر منجمد شمالی اب نئی طاقتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ روس، چین، امریکا، ناروے اور کینیڈا اس خطے میں طاقت کے حصول کے اہم کھلاڑی ہیں۔ توقع ہے کہ 2040ء کے موسم گرما تک یہ خطہ برف سے آزاد ہو جائے گا۔ یہاں نیا سمندر، اور نئے مواقع اور نئے ذرائع دستیاب ہوں گے۔ بحر مجمد شمالی قدرتی دولت سے مالا مال ہے۔ یہاں دنیا کی 30 فی صد غیر دریافت شدہ گیس، 13 فی صد غیر دریافت شدہ تیل، یورینیم کے بہت بڑی مقدار، سونا اور ہیروں کے علاوہ مچھلیوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ برف کے نیچے 90 ارب بیرل تیل، 669 ہزار ارب کیوبک فٹ قدرتی گیس، 44 ارب بیرل قدرتی مائع گیس یہاں موجود ہے۔ یہ سمندری روٹ کو وسعت اور وقت کی بچت کا سبب ہوگا اس سے یورپ اور ایشیا میں 40 فی صد فاصلے کی کمی ہو جائے گی۔ ایک بحری جہاز آج کل روٹر ڈمسے جاپان آنے میں 40 دن کا وقت لیتا ہے جبکہ 2040ء میں وقت کم ہو کر 18 دن ہو جائے گا یعنی 22 دن کی کمی واقع ہوگی۔ ہر سال پرانا سے 14 ہزار بحری جہاز گزرتے ہیں جبکہ سوئز سے 20 ہزار سے زائد بحری جہاز گزرتے ہیں۔ 2040ء میں بحر منجمد شمالی اہم ترین سمندری گزرگاہ ہوگا۔ 2015ء میں روس نے اقوام متحدہ کے کنونشن 234 میں بحر منجمد شمالی کے 12 لاکھ مربع کلومیٹر علاقے کا دعویٰ پیش کیا۔ روس کو اس علاقے میں دوسرے ممالک کی نسبت تقابلاتی سکت حاصل ہے۔

 

روس کو ائس بریکر میں امریکا سے تقابلاتی سبقت حاصل ہے۔ جب بھی کوئی بحری جہاز پھنس جائے تو روس ہی اس کی مدد کے لیے آ سکتا ہے۔ اس لیے بحر منجمد شمالی سے گزرنے والا ہر بحری جہاز کو روس کو ٹیکس کی ادائیگی کرنی ہوگی روس نے اس علاقے میں چین کے ساتھ تزویراتی اتحاد کیا ہے۔ تجزیہ کار روس اور چین کے تزویراتی اتحاد کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں۔ چین اور آرکیٹک سرکل سے صرف 900 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ چین اس خطے میں انفرا اسٹرکچر پر بڑی توجہ دے رہا ہے۔ اور اس خطے میں ’’قطبی شاہراہ ریشم‘‘ کی تعمیر کا خواہش مند ہے۔ چین نے اس علاقے میں سائنسی تحقیق پر بھی بھرپور توجہ دی ہے، چین سولبرڈ آئس لینڈ میں تحقیقی مرکز تعمیر کر رہا ہے۔ امریکا چین کی اس خطے میں نقل و حرکت اور سرگرمیوں کو حسد اور بغض کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ امریکا چین اور روس میں اختلافات پیدا کرنے کا خواہش مند ہے۔ جولائی 2017ء میں روس اور چین نے مشترکہ منصوبے (بحر منجمد شاہراہ ریشم کا نام دیا گیا) کا آغاز کیا۔

 

روس میں متعدد قدرتی اور معدنی ذخائر پائے جاتے ہیں جس کا مرکز ساخا ہے جہاں سونا، تانبا، پلاٹینیم، خام لوہا، کوئلہ اور دیگر قدرتی ذخائر موجود ہیں۔ عالمی حالات اور مناظر میں تبدیلی سے ایسا لگتا ہے کہ عالمی طاقت کا توازن مغرب اور امریکا کے ہاتھ سے نکل کر روس اور چین کے ہاتھ میں آ رہا ہے اور امریکا و مغرب کی بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ بھی طاقت کے استوازن کی روس اور چین کو منتقلی میں خاطر خواہ رکاوٹ نہیں ڈال رہی۔ ایران بھی روس اور چین کے ساتھ تزویراتی شراکت کر چکا ہے، ڈالر کا متبادل تلاش کیا جا رہا ہے، برکس (BIRCS) میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارت اور نائجیریا سمیت چھے ملکوں کی شمولیت میں طاقت کے بدلتے پیمانوں کا اظہار ہے جبکہ حالیہ حماس کی جانب سے اسرائیل کے خلاف کامیاب کارروائی اور جوابی کارروائی کے طور پر اسرائیل کے ظلم و ستم، درندگی اور دہشت گرد کارروائیوں نے خطے کی کھیل کا توازن بگاڑ دیا ہے اور جی 20 اجلاس میں امریکا، بھارت، یورپ، سعودی عرب اور اسرائیل کے تعاون نے جس کوریڈور کا منصوبہ پیش کر کے چین اور روس کی پیش رفت کو روکنے کی کوشش کی گئی تھی اسے شدید دھچکا پہنچا ہے جبکہ مسلمان ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور مسئلہ فلسطین کو سرد خانے میں ڈالنے کی کوشش بھی ناکام ثابت ہوئی ہے۔