فلسطین کا المیہ

1228

مسلمانانِ عالَم کے لیے المیہ یہ ہے کہ خَاتَمُ النَّبِیّٖن، رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن سیدنا محمد رسول اللہؐ کے سفر معراج کی پہلی فِرُودگاہ ’’بیت المقدِس‘‘ پر آج صہیونیوں کا قبضہ ہے، اسے قرآنِ کریم نے ’’اَلْمَسْجِدُ الْاَقْصٰی‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے، شبِ معراج کو بیت المقدِس یا مسجدِ اقصیٰ کو نبی اول آدمؑ سے لے کر خَاتَمُ النَّبِیّٖن سیدنا محمد رسول اللہؐ تک سب انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے قدموں کے لَمس کا شرف حاصل ہے۔ ’’قُبَّۃُ الصَّخْریٰ‘‘ کی ایک چٹان میں سوراخ کر کے تاجدارِ کائناتؐ کی سواری براق کو باندھا گیا تھا۔ جبریلِ امین نے اذان اور اقامت کہی، تمام انبیائے کرام مقتدی بنے اور خاتم النبیّٖنؐ نے امامت فرمائی، امامِ اہلسنّت احمد رضا قادریؒ نے کہا ہے:

نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سِرّ، عَیاں ہوں معنی، اوّل آخِر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر، جو سلطنت آگے کر گئے تھے

نوٹ: فِرُودگاہ کے معنی ہیں: ’’قیام گاہ، اترنے کی جگہ‘‘۔ احمد ندیم قاسمی نے بڑی خوبصورت نعت لکھی ہے، اس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:

کچھ نہیں مانگتا، شاہوں سے یہ شیدا تیرا ٭ اس کی دولت ہے فقط، نقشِ کفِ پا تیرا ٭ پورے قد سے میں کھڑا ہوں، تو یہ ہے تیرا کرم ٭ مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے، سہارا تیرا ٭ دستگیری میری تنہائی کی، تونے ہی تو کی ٭ میں تو مر جاتا، اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا ٭ لوگ کہتے ہیں، سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا ٭ میں تو کہتا ہوں، جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا ٭ تو بشر بھی ہے، مگر فخرِ بشر بھی تو ہے ٭ مجھ کو تو یاد ہے، بس اتنا سراپا تیرا ٭ تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا، ہزاروں کا سہی ٭ اب جو تا حشر کا فردا ہے، وہ تنہا تیرا ٭ اس نعت کا مقطع یہ ہے:

ایک بار اور بھی، بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے، مسجدِ اقصیٰ تیرا

رسول اللہ ؐ کے دوسرے خلیفۂ راشد امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظمؓ کے عہد مبارک میں بیت المقدس فتح ہوا اور اس کی تولیت مسلمانوں کے حصے میں آئی۔ 1948 میں مغربی ممالک کے اقوامِ متحدہ پر تسلّط کے سبب اسرائیل کا ناسور وجود میں آیا اور اہلِ فلسطین کو اپنے وطن سے محروم کردیا گیا ہے، وہ دربدر بھٹکتے پھر رہے ہیں، ان کی کئی نسلیں کرب سے گزری ہیں اور یہ ستم آج بھی جاری ہے۔ 1967 میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی، مگر امریکا کی پشت پناہی کے سبب یہ جنگ مسلمانوں کی ناکامیوں پر مُنْتَج ہوئی۔ اسرائیل نے صحرائے سینا کے بیش تر علاقے سمیت شام کی جولان کی پہاڑیوں پربھی قبضہ کرلیا، جو آج تک قائم ہے، اسی طرح اردن کا مغربی کنارہ اور غزہ کا علاقہ بھی اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا۔ 1978 میںاُس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے مصر کے صدر انورالسادات اور اسرائیلی وزیر اعظم مناخم بیگن کے درمیان معاہدہ کرایا جو ’’کیمپ ڈیوڈ‘‘ معاہدے کے نام سے موسوم ہے۔

اس معاہدے کے تحت سینا کا علاقہ مصر کو واپس دے دیا گیا اور مصر نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے اور اُس وقت کے مصری صدر انورالسادات نے اسرائیلی پارلیمنٹ سے بھی خطاب کیا۔ یاسر عرفات کی سربراہی میں الفتح کے نام سے تنظیمِ آزادیِ فلسطین قائم ہوئی، پھر وہ فلسطینی اتھارٹی کے پہلے سربراہ مقرر ہوئے اور آج کل محمود عباس اس کے سربراہ ہیں۔ شیخ احمد یاسین نے حماس کے نام سے تحریکِ آزادیِ فلسطین قائم کی اور آج بھی وہ زیر زمین موجود ہے۔ فلسطین اتھارٹی اُس حصے پر قائم کی گئی جو 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے اردن سے چھین لیا تھا، یہ دریائے اُردن کے مغربی ساحل اور غزہ کی پٹی پر مشتمل ہے، مگر اسرائیل مسلسل تجاوز کرتا رہا اور غزہ کے علاقے سے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے اپنی نوآبادیات قائم کرتا رہا۔ لاکھوں بے وطن فلسطینی دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور جو فلسطین اتھارٹی کے زیرِ نگیں آباد ہیں، اُن کی جان ومال کو بھی ہروقت خطرات لاحق رہتے ہیں اور اسرائیلی جب چاہتے ہیں، چڑھ دوڑتے ہیں۔ چشمِ فلک نے کئی بار اسرائیل کی جانب سے ننگی جارحیت اور ظلم و درندگی کے دردناک مناظر دیکھے، بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو بھی نہ بخشا گیا۔

حال ہی میں غزہ کی پٹی میںہنستی بستی آبادیوں کو اندھا دھند بمباری کرکے ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا گیا، کسی کو نہیں معلوم کہ اس ملبے کے نیچے کتنے متنفس سسک سسک کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، تازہ ترین یہ ہے کہ اسپتالوں پر براہِ راست نشانہ بناکر بمباری کی گئی اور بچوں، بوڑھوں، جوانوں، بزرگوں اور خواتین پر مشتمل ہزاروں نفوس کو حقِ حیات سے محروم کردیا گیا۔ شہداء کی تعداد ہزاروں میں ہے، اموات اتنی ہیں کہ قبرستان تنگ پڑ گئے ہیں۔ المیہ یہ ہے: مغربی میڈیا نے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھوٹی خبریں نشر کیں، اسرائیل کو ظالم کے روپ میں دکھانے کے بجائے مظلوم بناکر پیش کیا جارہا ہے، امریکی صدر بائیڈن نے غزہ کے نیشنل اسپتال پر بمباری کا الزام حماس کے سر تھوپ دیا، یہ ایک سپر پاور کے سربراہ کا انتہائی سنگ دلانہ رویہ ہے۔

معروف برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی، امریکا کے بڑے نشریاتی ادارے سی این این اور فاکس ٹیلی ویژن جانب دارانہ خبریں نشر کر رہے ہیں، سچ کو چھپایا جارہا ہے اور جھوٹ کو نہایت ڈھٹائی کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے، شاعر نے کہا ہے:

لشکر بھی تمہارا ہے، سردار بھی تمہارا ہے
تم جھوٹ کو سچ لکھ دو، اخبار بھی تمہارا ہے

پیرزادہ قاسم نے کہا ہے:

شہر طلب کرے، اگر تم سے علاج تیرگی
صاحبِ اختیار ہو، آگ لگا دیا کرو

حفیظ تائب نے بارگاہِ رسالت میں استغاثہ کرتے ہوئے کہا تھا:
سچ مرے دور میں جرم ہے، عیب ہے، جھوٹ فنِّ عظیم، آج لاریب ہے
اک اعزاز ہے جہل وبے راہ روی، ایک آزار ہے، آگہی یا نبی!

دوسری طرف ستاون مسلم حکومتیں اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم بے بس ہیں، حربی اقدام تو دور کی بات ہے، کوئی مؤثر سیاسی، سفارتی اور اقتصادی اجتماعی اقدام بھی سامنے نہیں آیا۔ مظلوم فلسطینیوں کے لیے ان کی ساری سوغات مذمتی قراردادیں ہیں اور بس! مسلم عوام صرف احتجاج کرسکتے ہیں، ریلیاں نکال سکتے ہیں، قراردادیں پاس کرسکتے ہیں، ابھی تک مظلوم فلسطینیوں کی بحالی اور امداد کے لیے کسی کا کوئی مؤثر کردار سامنے نہیں آیا، علامہ اقبال نے کہا ہے:

تقدیر کے قاضی کا، یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا، مرگِ مفاجات!

حیرت کی بات ہے! مغرب کے سرمائے سے پھلنے پھولنے والے این جی اوز، موم بتی مافیا اور لبرل بھی گونگے، بہرے اور اندھے بنے ہوئے ہیں، انہیں بھی ان مظالم پر آواز اٹھانے کی توفیق نہیں ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو: اُن کے مغربی سرپرست اور مُربّی ناراض ہوجائیں اور اُن کے راتَب بند ہوجائیں۔ نوٹ: راتَب کے معنی ہیں: ’’روزانہ کی بندھی ہوئی خوراک، کھانا، راشن، روزینہ، وظیفہ‘‘۔ فلسطین کی اندوہناک صورتِ حال کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا کی اولین ترجیح بھی کرکٹ ورلڈ کپ ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور ( مسلمانو!) تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں قتال نہیں کرتے، حالانکہ بعض کمزور مرد، عورتیں اور بچے (پکار پکار کر) یہ دعا کر رہے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کی اِس بستی سے نکال دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی کارساز بنا اور کسی کو اپنے پاس سے ہمارا مددگار بنادے‘‘، (النسآء: 75)

حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا ثوبانؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ دوسری قومیں تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی، جیسے کھانے والے خوانِ نعمت پر ٹوٹ پڑتے ہیں، ایک شخص نے کہا: (یارسول اللہ!) کیا ہم اُس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟، آپؐ نے فرمایا: (نہیں!) بلکہ تم اُس وقت تعداد میں زیادہ ہوگے، لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح (بے توقیر) ہوجائو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ’’وَھْن‘‘ ڈال دے گا، سائل نے پوچھا: یارسول اللہ! ’’وَھْن‘‘ سے کیا مراد ہے، آپؐ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کو ناپسند کرنا‘‘۔ (ابودائود)

تاریخ کا المیہ یہ ہے: اس وقت دنیا مدبّر (Statesmanship) قیادت سے محروم ہے، تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ امریکا اپنی حربی صلاحیت اور اقتصادی برتری کے سبب وحدانی سپر پاور بنا ہوا ہے، لیکن وہ عالمی برادری کی قیادت کی اخلاقی صلاحیت سے محروم ہے، کوتاہ قامت، تنگ نظر اور بونے قیادت کے مناصب پر فائز ہیں۔ وہ اپنی ذاتی اور قومی ترجیحات سے بلند تر ہوکر عالمی قیادت کی صلاحیت سے محروم ہیں، امریکی صدر بائیڈن معمر ہونے کی بنا پر بعض اوقات توازن کھو بیٹھتے ہیں، لیکن ڈیموکریٹک پارٹی میں ان کا کوئی توانا حریف سامنے نہیں آرہا، اسی طرح ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ریپبلکن پارٹی میں کوئی چیلنج سامنے نہیں ہے۔ الغرض قیادت کا فقدان ہے، سارا یورپ بھی توانا قیادت سے محروم ہے، وہ امریکا کے تابع مہمل بنے ہوئے ہیں، یورپ بھر میں کوئی توانا قیادت نہیں ہے، جو امریکا کو معقولیت کی طرف مائل کرے، ان کا کام صرف آنکھیں بند کر کے امریکا کی ہاں میں ہاں ملانا ہے۔ اہلِ مغرب کی طرف سے حقوقِ انسانی، حقوقِ اَطفال، حقوقِ نسواں اور جمہوریت پسندی کے نعرے صرف مخالفین کو دبائو میں لانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، درحقیقت انہیں ان اَقدار سے کوئی غرض نہیں ہے، ورنہ عالمی برادری پر لازم تھا کہ اسرائیل کو جنگی جرائم کا مجرم قرار دیتے اور اس کے خلاف عالمی سطح پر تادیبی اقدامات کیے جاتے۔ اس کے برعکس امریکا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی قراردادوں کو یک طرفہ طور پر ویٹو کر رہا ہے اور اس نے عالمی ادارے کو مفلوج بناکر رکھا ہوا ہے، دراصل ویٹو کا اصول ہی جمہوریت اور جمہوری اَقدار کی نفی ہے کہ پوری عالمی برادری ایک طرف ہو، تب بھی ایک ملک اس کے اِجماعی فیصلوں کو یکسر منسوخ کرسکتا ہے۔

عالمی سطح پر صرف چینی صدر شی جن پنگ مدبّر نظر آتے ہیں، لیکن وہ خاموشی کے ساتھ اپنی معیشت کو مستحکم کرنے پر پوری توجہ مرتکز کیے ہوئے ہے، نیز عالمی سطح پر وہ اپنے سیاسی واقتصادی اثر رسوخ کو پوری منصوبہ بندی، تدبر اور حکمت کے ساتھ بڑھانے میں مصروف ہیں۔ وہ امریکا کے برعکس محاذ آرائی سے بچتے بچاتے آگے بڑھ رہے ہیں، سی پیک، بیلٹ اینڈ روڈ انی شیٹیو اس کی اسی عالمی پالیسی کا حصہ ہیں، لیکن چین امریکا کی طرح نہ جنگیں کاشت کرتا ہے اور نہ ان کا خریدار ہے، روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے اپنے آپ کو یوکرین کی جنگ میں الجھا دیا ہے، لہٰذا وہ امریکا کو سرِدست کوئی بڑا چیلنج نہیں دے سکتا اور یورپ امریکا کی متابعت میں محصور ہوچکا ہے، اس لیے اس کے ہاتھ سے عالمی قیادت نکل چکی ہے۔