حماس کے حملے نے اسرائیل سمیت اُس کے حواریوں کو حواس باختہ کردیا ہے اور یوں یہ ’’غزہ‘‘ کے بے گناہوں پر فضائی حملوں سے اپنے غصہ نکال رہے ہیں اور یوں ہولی کے دنوں میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ اسرائیل کا وزیراعظم اس کارروائی کو جو سال کے نویں ماہ میں ہوئی اُس کو امریکا پر ہونے والے نائن الیون پر حملہ سے تشبیہ دے کر یہ ثابت کرنے میں قدرے کامیاب ہوا ہے کہ یہ حملہ بھی اُسی طرح کا کفر کی قوت کو للکارنے کا ہے، سو امریکا اُس ہی طرح کے اقدامات کرے جو نائن الیون کے بعد اُس نے کیے تھے اور پھر صلیبی جنگ چھیڑی تھی اس کا اعادہ اس یہودی جنگ میں کرے۔ یہود اور نصاریٰ جو ایک سکے کے دو رُخ ہیں ایک پر ربّ کا غضب ہے تو دوسرا راہ بھٹکے کا ٹولہ ہے۔ سو امریکا کی تشویش دیدنی ہے اُس کی گھبراہٹ اور حماس کے مجاہدین کی مسکراہٹ میں ہاتھی اور چیونٹی کے معرکہ کا عکس نمایاں ہے۔ اب یہ معرکہ بھی بالآخر کچھ دو اور کچھ لو پر طے ہوگا۔ مگر کیا حماس کی چھیڑی جنگ نائن الیون پاکستان پر بھی اثر انداز اُسی طرح ہوگی جس طرح ہر بڑے واقعے نے پاکستان کو دنیائے عالم کی تسبیح کا امام بنایا اور پاکستان کی ریاست اور سیاست میں اہم اثرات چھوڑے۔
روس، افغانستان میں نہ آتا تو پاکستان ایٹمی قوت کا عمل یوں آسانی سے نہ نمٹا سکتا تھا۔ امریکا خون کے گھونٹ پیتا رہا اور پاکستان کے ایٹمی منصوبے سے آنکھ موندے رہا۔ اور پاکستان کی فوجی حکمرانی کو آنکھوں پر 11 سال تک بٹھائے رہا۔ پھر جب امریکا کے ساتھ نائن الیون نے جو درگت کی اور وہ پلان کی خاطر افغانستان پر چڑھ دوڑا تو اس وقت بھی وہی امریکی صدر جو فوجی سربراہ پاکستان سے ہاتھ ملانا گوارا نہیں کرتا تھا غرض کا غلام بن کر پلکیں دس سال تک پاکستان کے لیے بچھاتا رہا اور بحالی جمہوریت کا تقاضا چھوڑ بیٹھا۔ اس جنگ نے روس کو بھارت سے دور اور پاکستان سے قریب کیا۔ حماس اسرائیل معرکہ بھی عطیہ خداوندی ثابت ہورہا ہے۔ اب اسرائیل پر حملے کو امریکا اپنے یار پر حملہ قرار دے کر خوار ہورہا ہے، یہ بڑا واقعہ کایا پلٹ کیا پاکستان پر بھی گہرے اثرات چھوڑے گا۔ ضرور بالضرور۔
دنیا پاکستان کو مجاہدین کی ماں سمجھتی ہے اور امریکا کھوئی ہوئی اپنی عزت کی بحالی خاطر وہی کردار ادا کرے گا جو ماضی میں اُس نے اپنایا تھا۔ تو کیا پاکستان میں ماہ جنوری 2024ء کے مجوزہ انتخابات ہوسکیں گے کا سوال اُٹھ رہا ہے کہ دنیا میں غیظ و غضب کا دھواں اُٹھ رہا ہے، جبکہ عالمی طاقتوں کو سر کی پڑی ہے وہ پاکستان پر دبائو ڈالیں کہ جمہوریت بحال کرو، بلکہ وہ اس مملکت کو لاڈلا بیٹا جمورا بنا کر اس درد سر کا علاج چاہیں گے جو پوری دنیا میں ان کے خلاف ابل پڑا ہے اور غزہ کے بے گناہوں کا خون رنگ لارہا ہے۔ آئی ایم ایف کا دبائو بھی جو امریکا کے اشارے پر تھا اب کمتر ہوجائے گا۔ بین الاقوامی دبائو سے پاکستان کی گلوخلاصی انتخابی عمل سے بھی فی الحال گلوخلاصی کا سامان کرے گی۔ نگراں حکومت تو بے چاری ہے اس کے چارہ گر چیف آف آرمی اسٹاف حافظ عاصم منیر کے سخت گیر اقدامات نے اسمگلنگ کے خاتمے میں خاص کامیابی حاصل کرکے ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو گردن سے دبوچ کر نیچے گرا دیا اور مہنگائی کے منہ میں لگام ڈال دی۔ اب تاجر حلقہ صنعت کار طبقہ چاہتا ہے کہ لٹیرے سیاست دان سرمایہ کے بل بوتے پر پھر ایوان اور حکومت میں آکر اس بنے بنائے کھیل کو نہ بگاڑ دیں کے خدشے کا شکار ہیں۔ مولانا فضل الرحمن جو نازک مرحلہ میں کام آتے ہیں اُجرت پاتے ہیں نے تو سردی کے موسم کی بات کرکے انتخابات فریز کردیے ہیں اور اب سیاسی گنجائش کا نسخہ ٔ شفا لے کر آئے ہیں کہ مل جل کر بانٹ لو، اور ان کی بات مان لو جو اصل حکمران ہوتے ہیں کٹھ پتلی کا کام لڑنا نہیں ناچنا ہوتا ہے۔ مقتدر حلقوں سے بیٹھ کر بات کرلو، واقعات نے حالات بدل دیے ہیں، صورت حال اور ہوچکی ہے، نئی سیاسی ہل چل بتاتی ہے کہ ملک میں جو انتخابات کرانا اسٹیبلشمنٹ کی مجبوری تھی عالمی تناظر میں اب نہیں رہی۔
پل میں سنگین ہونے والے حماس اور اسرائیل تنازع کی عالمی صورت حال نے پاکستان میں انتخاب کو کھٹائی مین ڈال دیا ہے، اس تنازعے ہی نے نواز شریف کو پاکستان میں آنے کی ضمانت دی اور وہ بھی اپنے حمایتوں کو لکھ کر دے رہے ہیں کہ ہماری ڈیل ہوگئی ہے۔ ڈھیل ہی نہیں بلکہ چوتھی مرتبہ وزیراعظم کی یقین دہانی بھی ساتھ ہے مگر کب؟ یہ بتانے کے لیے اُن کے پاس بھی دلیل نہیں ہے۔ مہنگائی کو لگام اور حماس تنازعے نے پاکستان کو انتخابات سے دور پرے کردیا ہے۔ نگراں حکومت نے پی ٹی آئی کی قیادت سے رابطہ کر ڈالا ہے تو صدر مملکت نے بھی پی ٹی آئی سے ملاقات کر ڈالی ہے اور انتخاب کے ساتھ مقتدر حلقوں سے تعلقات کی بحالی کی خواہش کا اظہار بھی کر ڈالا ہے۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، مولانا فضل الرحمن کے ارشاد گرامی کا یہ جملہ کہ اس وقت پاکستان اور امت مسلمہ دونوں کئی مشکلات کا شکار ہیں، پاکستان کے مسائل کا حل کسی ایک شخص یا جماعت کے پاس نہیں، معاشی ترقی و استحکام سیاسی و داخلی استحکام کے ساتھ جڑا ہوا ہے، بات اُن کی اور زبان ان کی کا مظہر ہے۔ ایمل ولی خان پہلے معیشت پھر انتخاب کا نعرہ بلند کرچکے ہیں۔ رہی جماعت اسلامی اب اس کی ساری توجہ بھی جہاد بیت المقدس کی طرف مبذول ہوگئی ہے۔ انتخابات اب ثانوی حیثیت پر چلے گئے ہیں وہ جذبہ شوق شہادت کو مہمیز دینے اور متاثرین غزہ کی مدد کرنے پر تن من دھن سے مصروف ہے۔