امریکا میں چند روز

518

کورونا کی وبا کے سبب تقریباً پانچ سال کے وقفے کے بعد 29ستمبر 2023ء کو امریکا پہنچا اور 16اکتوبر 2023ء کو وہاں سے واپس روانہ ہوکر 18اکتوبرکو علی الصباح واپس کراچی پہنچا، یہ اٹھارہ روزہ دورہ کافی مصروف گزرا۔ ٹامز ریور نیوجرسی کی ’’جامع مسجد السلام‘‘ کے بانی وخطیب علامہ مقصود احمد قادری نے میرے دورے کا یہ پروگرام تشکیل دیا، وہ ہمیشہ محبت فرماتے ہیں اور اصرار کرتے رہتے ہیں۔ اس دورے میں امریکا کی ریاستوں نیو یارک اسٹیٹ، نیو جرسی اسٹیٹ، ٹینیسی اسٹیٹ، ٹیکساس اسٹیٹ میں ہیوسٹن اور ڈیلس اور سکرامنٹو (کیلیفورنیا) میں متعدد پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا۔ نیو یارک میں میرے میزبان افضل باجوہ، خاور بیگ اور الہدیٰ اسلامک سینٹر کے علامہ مدثر حسین تھے، ان سب نے بے حد محبت سے نوازا اور قیام کے انتظام کے ساتھ ساتھ پروگراموں میں آمد ورفت کی ذمے داری بھی سنبھالے رکھی۔ ہیوسٹن میں النور اسلامک سینٹر، القریش مسجد اور جامع مسجد طیبہ میں مرکزی پروگرام منعقد ہوئے، جبکہ ڈیلس میں الطاف نور ہمارے میزبان تھے اور ان کے قائم کردہ ادارہ ’’برکات القرآن اسلامک سینٹر وجامع مسجد آمنہ‘‘ میں مرکزی پروگرام منعقد ہوا۔ ہیوسٹن میں ڈاکٹر جنید اویس میرے میزبان رہے، انہوں نے امریکا کی یونیورسٹی سے سائبر سیکورٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے، وہ اور علامہ مقصود قادری ڈیلس، سکرامنٹو (کیلیفورنیا) کے اَسفار میں میرے ہم سفر رہے، ہوٹلوں میں قیام کا انتظام بھی انہوں نے اپنے ذمے لے رکھا تھا۔ ہیوسٹن میں ڈاکٹر سلیم گوپلانی، اختر عبداللہ اور ظفر ہاشمی بھی ہمیشہ محبت سے پیش آتے ہیں۔ ٹینیسی اسٹیٹ میں ڈاکٹر شہرام ملک میزبانی کے فرائض انجام دیتے ہیں، ان کی رہائش گاہ پر متعدد ڈاکٹر صاحبان، آئی ٹی اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات دور دراز سے سفر کرکے تشریف لاتے ہیں، اُن کے ساتھ مفید نشست منعقد ہوتی ہے، افادے اور استفادے کا بہترین موقع میسر آتا ہے، ڈاکٹر خالد اعوان نامی گرامی سرجن ہونے کے ساتھ ساتھ دین سے بہت شغف رکھتے ہیں، ان کا تفاسیر واحادیث کا مطالعہ قابلِ رشک ہے، ان کے ہاں ہفتہ وار محفل درس منعقد ہوتی ہے، ان کے ساتھ ہمارا علمی رابطہ مستقل رہتا ہے۔

پاکستان میں سیاست پر مسلسل بولتے، سنتے، لکھتے اور پڑھتے ہم اکتائے ہوتے ہیں، اس لیے میں نے اس بات کا اہتمام کیا تھا کہ امریکا میں پاکستانی سیاست پرکوئی بات نہیں ہوگی۔ میں نے زیادہ تر امریکی سیاست، امریکی وفاقی اور ریاستی نظامِ حکومت کو سمجھنے میں دلچسپی لی، اپنی معلومات میں اضافہ کیا اور بہت سے امو رکے بارے میں آگہی حاصل کی۔ تارکینِ وطن بالخصوص پاکستانی پس منظر کے حامل لوگ ڈیموکریٹک پارٹی سے قربت رکھتے ہیں، کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی کی پالیسیاں تارکینِ وطن کے لیے نسبتاً بہتر ہوتی ہیں۔ مگر اس مرتبہ یہ جان کر حیرت ہوئی کہ لوگ بائیڈن انتظامیہ کی اقتصادی پالیسیوں سے بدظن تھے، کاروبار اور روزگار کے حوالے سے ٹرمپ کے دور کو مقابلتاً بہتر قرار دے رہے تھے۔ قارئین کو یاد ہوگا: سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نعرہ ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ تھا، لہٰذا انہوں نے بین الاقوامی معاہدات اور اقتصادی پالیسیوں میں امریکی مفادات کو مقدم رکھا، وہ ہمارے عام محاورے کے مطابق منہ پھَٹ (Out Spoken) قسم کے آدمی تھے، لگی لپٹی رکھنے کے قائل نہیں تھے۔ پس اگر ٹرمپ کو انتخاب سے باہر نہ کیا گیا تو ان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکانات کو ردّ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے برعکس صدر بائیڈن کی پالیسیوں کے سبب داخلی طور پر کاروبار اور روزگار کے مواقع پر کافی دبائو ہے۔ نیو یارک میں ہمارے پاکستانی کافی تعداد میں تعمیر کی صنعت سے وابستہ ہیں، وہ بائیڈن کو کاروباری حالات کے بدتر ہونے کا دَوش دے رہے تھے۔ یوکرین کی جنگ نے یقینا روس کو زیادہ متاثر کیا ہوگا، لیکن امریکا اور اس کے ناٹو اتحادی بھی کافی متاثرہوئے ہیں۔

آسٹریلیا، یورپ، کینیڈا اور امریکا میں ہمارے پاکستانی طویل عرصے سے مقیم ہیں، وہ وہاں کی قومیت اور ان ممالک کے پاسپورٹ حاصل کرچکے ہیں، لیکن وہ سیاسی سوچ کے اعتبار سے پاکستان سے جڑے رہتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کے وِنگ وہاں بھی موجود ہیں، وہ بھی پاکستانی سیاست دانوں کی نفرت ومحبت میں ڈوبے رہتے ہیں۔ میں نے متعدد مجالس میں اُن سے کہا: ’’آپ لوگ بھارتی شہریوں سے سبق حاصل کریں اور امریکی سیاست میں حصہ لیں، کائونٹی سے لے کر ریاست اور وفاق کی سطح تک سیاست میں بھرپور کردار ادا کریں، متحد ہوکر اپنی سیاسی قوت کا ثبوت دیں تاکہ امریکی حکومت آپ کو نظر انداز نہ کرسکے‘‘۔ میں نے اُن سے کہا: ’’آج بھارتی نژاد رِشی سَونک برطانیہ کا وزیر اعظم ہے، امریکی نائب صدر کومیلا پارکر کا پس منظر بھی ماں کے حوالے سے بھارتی ہے، وائٹ ہائوس کے ترجمانوں میں بھارتی بھی شامل ہیں۔ کینیڈا میں بھارتیوں بالخصوص بھارتی پنجاب کے سکھوں کا اثر رسوخ بہت زیادہ ہے، کینیڈا کا وزیر دفاع بھی بھارتی نژاد سکھ ہے اور پارلیمنٹ میں بھی اُن کی معتَد بہ تعداد موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خالصتان تحریک کے ایک سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کو مبیّنہ طور پر بھارتی را کے ذریعے قتل کیا گیا تو کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے سامنے آکر بھرپور احتجاج کیا، امریکا کو بھی ان کا ساتھ دینا پڑا۔ بھارتی حکومت نے ابتدا میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور الزام کو یکسر ردّ کردیا، لیکن بالآخر اُسے تحقیقات میں تعاون پر آمادہ ہونا پڑا، یہ اسی دبائو کا نتیجہ تھا‘‘۔ الغرض جب تک پاکستانی اپنے نئے اختیار کردہ وطن میں منقسم رہیں گے، پاکستانی سیاست دانوں کے مزارع بنے رہیں گے تو وہ اُن ممالک کی سیاست میں بے اثر رہیں گے۔

میں نے اپنے پاکستانی بھائیوں بالخصوص نئی نسل کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے کہا: ’’آپ لوگ برطانیہ میں پاکستانی نژاد طالبہ ماہ نور چیمہ کو اپنا آئیڈیل بنائیں، انہوں نے جنرل سرٹیفکیٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن (GCSE) کے اولیول کے امتحان میں برطانوی تاریخ میں نیا ریکارڈ قائم کیا، اولیول کے 34مضامین کے امتحان میں اے اسٹار لیا، ان میں سے دس مضامین کا امتحان اپنے اسکول کے تحت دیا اور بقیہ چوبیس مضامین کا امتحان پرائیویٹ طور پر دیا۔ انہوں نے ذہانت کو جانچنے کے ادارے ’’مینسا انٹرنیشنل آئی کیو ٹیسٹ‘‘ میں 161 اسکور حاصل کیا اور ذہانت کے لحاظ سے دنیا کے ایک فی صد افراد میں شامل ہوئیں، ان کے والدین عثمان چیمہ اور طیبہ چیمہ کا آبائی تعلق لاہور سے ہے، وہ 2006 میں برطانیہ منتقل ہوئے۔ ماہ نور نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے قابلیت جانچنے کے کلینیکل ٹیسٹ (Aptitude Test) میں 3290 اسکور حاصل کر کے ننانوے فی صد کی شرح سے کامیابی حاصل کی، بعض تبصرہ نگاروں نے ماہ نور کی ذہانت کا تقابل شہرۂ آفاق سائنسدان آئن اسٹائن سے کیا ہے، یہ غیر معمولی کامیابی ہے، اُن کی دلچسپی کا موضوع میڈیکل ہے‘‘۔

میں نے کہا: ’’پاکستان میں نوجوان طلبہ اور طالبات کی بے حد خواہش ہوتی ہے کہ وہ مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں، امریکا میں پیدا ہونے والے پاکستانی نژاد بچوں کو قدرت نے موقع دیا ہے کہ وہ جدید ترین میڈیکل، انجینئرنگ، سائنس وٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، بزنس مارکیٹنگ اور مینیجمنٹ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور اس ملک میں عزت وافتخار کے ساتھ رہیں، نیز جو لوگ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بننا چاہتے ہیں، وہ پولیٹکل سائنس، انٹرنیشنل ریلیشنز، سوشل سائنسز، معاشیات، سفارت کاری، مختلف زبانوں میں مہارت اور ان جیسے مضامین میں نمایاں کامیابی حاصل کریں۔

پاکستان نے مغربی ممالک میں وَطَنیت حاصل کرنے والے پاکستانیوں کو دوہری شہریت کی سہولت دے رکھی ہے، اوورسیز پاکستانیوں کے لیے پاکستانی شہریت کے اسمارٹ شناختی کارڈ (SNICOP) کی سہولت دی ہوئی ہے، وہ پاکستان میں جہاں چاہیں جائداد خرید سکتے ہیں،

خصوصی شناختی کارڈ کے حامل پاکستانیوں کو پاکستان آنے کے لیے ویزے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس جو بھارتی نژاد شہری دوسرے ممالک کی شہریت اختیار کرتے ہیں، ان کو بھارتی قومیت سے دست بردار ہونا پڑتا ہے اور وہ بھارت کے شہروں میں جائداد بھی نہیں خرید سکتے، اس کے باوجود اُن کی اپنے آبائی وطن کے ساتھ وفاداری مثالی ہے، وہ امریکا، برطانیہ اور یورپ کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاست میں اثر رسوخ پیدا کرکے اُسے بھارت کے مفاد میں استعمال کرتے ہیں، جبکہ ہمارے پاکستانی وہاں کی سیاست کے بجائے پاکستانی سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں، حالانکہ یہاں آکر رہنے کا اُن کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا، لیکن پاکستان کی ’’محبت‘‘ کو پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ضرور استعمال کرتے ہیں۔

امریکا کا سرکاری نام ’’یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا‘‘ ہے، یہ ملک پچاس خود مختار ریاستوں پر مشتمل ہے، وہاں صوبے کے بجائے ریاست (State) کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، یہ ایک فیڈریشن نہیں، بلکہ کنفیڈریشن یعنی ڈھیلا ڈھالا وفاق ہے۔ وفاق کے تحت محصولات کے لیے ’’انٹرنل ریونیو سروس (IRS)‘‘ قائم ہے۔ ہماری طرح نہیں ہے کہ وفاق ’’فیڈرل بورڈ آف ریونیو‘‘ کے تحت مالی وسائل جمع کرے اور پھر طے شدہ فارمولے کے تحت اُس میں سے صوبوں کو حصہ دے، بلکہ امریکا میں وفاق، ریاستوں اور مقامی حکومتوں کے مالی وسائل کا نظام الگ الگ ہے اور وہ اس سلسلے میں خود مختار ہیں۔ بعض ریاستیں، جیسے نیویارک، کیلی فورنیا اور ٹیکساس وغیرہ زیادہ مالی وسائل رکھتی ہیں اور بعض اُن سے کم ہیں، لیکن ہماری طرح اُن کے درمیان تنازع نہیں ہوتا۔ ریاستوں کو وفاق سے علٰیحدگی کا آئینی حق بھی حاصل ہے، اگرچہ ایسا کبھی ہوا نہیں ہے، ریاستیں کسی وفاقی قانون کے مقابل اپنے قوانین بھی بناسکتی ہیں۔ اسی طرح امریکا میں وفاق کی سطح پر الیکشن کمیشن کے نام سے کوئی ادارہ نہیں ہے، انتخابات کے حوالے سے تمام ریاستوں کے اپنے اپنے قوانین اور خود مختار انتخابی ادارے ہیں اور صدارتی انتخابات بھی انھی کے تحت منعقد ہوتے ہیں۔ وبائی امراض، زلزلوں یا سمندری طوفانوں کے مواقع پر اگر کوئی ریاست یا ریاستیں زیادہ متاثر ہوجائیں، تو وفاق اُن کی مدد کرتا ہے، جیسے کورونا کی وباپر قابو پانے کے لیے بائیڈن انتظامیہ نے کئی کھرب ڈالر کا پیکیج پورے امریکا کے لیے منظور کیا، گھر بیٹھے بٹھائے لوگوں کو تنخواہیں ملتی رہیں اور کاروباری لوگوں کو بھی اعانت فراہم کی جاتی رہی۔ نوٹ: فلسطین میں جو المیہ رونما ہوا ہے، اس کے حوالے سے اگلے کالم میں اپنے خیالات کا اظہار کروں گا، نیز بعض دیگر پہلوئوں پر بھی گفتگو ہوگی۔