امت مسلمہ کے قبلۂ اول بیت المقدس کے تحفظ کے لیے برسر پیکار فلسطینی مسلمانوں پر آتش و آہن کی بارش دو ہفتے سے جاری ہے، جس کی زد میں آ کر ہزاروں فلسطینی جام شہادت نوش کر چکے ہیں جب کہ ہزاروں زخموں سے چور علاج معالجے سے محروم کسمپرسی کے دن گزار رہے ہیں دیگر فلسطینی مسلمان بھی مسلسل محاصرے کی حالت میں خوراک، ادویات، پانی اور ہر قسم کی ضروریات زندگی سے محروم بے بسی و بے کسی کی تصویر بنے دشمن کے بم برساتے طیاروں کے رحم و کرم پر ہیں مصائب سے دو چار ہمارے ان بھائیوں کے لیے زندگی فی الواقع اجیرن ہو چکی ہے مگر پاکستانی ذرائع ابلاغ ان مظلوموں کو یکسر فراموش کر کے تین دفعہ کے سابق وزیر اعظم، عدالت سے سزا یافتہ مجرم میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے بخار میں مبتلا ہیں اور پوری قوم کو بھی اس وبا کا شکار بنا رکھا ہے۔ ابھی چند ہفتے پہلے تک میاں نواز شریف کے برادر خورد میاں شہباز شریف ملک میں قائم چودہ جماعتی اتحاد کی حکومت کے وزیر اعظم تھے مگر محترمہ مریم نواز معلوم نہیں کس سے ’’لیول پلیٹنگ فیلڈ‘‘ یعنی کھیل کے لیے یکساں میدان فراہم کرنے کی درخواستیں کر رہی تھیں، کھیل کا یہ مطلوبہ یکساں میدان شاید آج فراہم کر دیا گیا ہے، جو میاں نواز شریف کی واپسی ہو رہی ہے۔ قانون کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اندھا ہوتا ہے یعنی اس کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں، وہ بڑے چھوٹے، امیر غریب کا فرق ملحوظ رکھے بغیر سب کو ایک آنکھ سے دیکھتا اور انصاف فراہم کرتا ہے مگر پاکستان کا باوا آدم نرالا ہے، اس وقت جب کہ ہزاروں لوگوں کی درخواستیں عدالتوں میں شنوائی کی منتظر ہیں اور مہینوں بلکہ برسوں تک ان کی سماعت کی نوبت نہیں آتی، انہی عدالبتوں اور اس نظام انصاف میں میاں نواز شریف جو گزشتہ چار برس سے مفرور، اشتہاری اور پاکستانی نظام عدل کو مطلوب تھے، ان کی درخواستیں آج دائر ہوتی ہیں اور اگلے دن احتساب عدالت اسلام آباد سے توشہ خانہ کیس میں وارنٹ معطلی اور عدالت عالیہ اسلام آباد سے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسوں میں حفاظتی ضمانت کے احکام مل جاتے ہیں۔ کیا اس سے زیادہ تیز رفتار عدالتی نظام دنیا کے کسی اور ملک میں ہو گا…؟ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ خود مدعی یعنی وکیل استغاثہ نے بھی سفارش کی کہ میاں نواز شریف کے دائمی وارنٹ گرفتاری معطل کر دیئے جائیں۔ اس عجیب و غریب عدالتی کارروائی کی یہ پہلی مثال نہیں، قبل ازیں یہی میاں صاحب عدالت سے سزا یابی کے بعد جیل میں اچانک ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہو گئے کہ زندگی لمحوں کی مہمان نظر آنے لگی۔ چنانچہ پہلے ایک نادر مثال قائم کرتے ہوئے ان کی سزا یافتہ بیٹی کو والد کی تیمار داری کے لیے ضمانت پر جیل سے رہا کیا گیا اور پھر والد کو ’’علاج‘‘ کے لیے لندن سدھار گئے مگر ان کی ’تیمار داری‘ کی خاطر رہا ہونے والی بیٹی اسی ضمانت نامے پر ملک بھر میں سیاسی جلسے کرتی اور بیٹے کے ولیمے کی تقریبات کی رونق بڑھاتی رہیں۔ اسی طرح میاں شہباز شریف نے پچاس روپے کے اسٹامپ پیپر پر عدالت میں ضمانت نامہ داخل کر دیا کہ میاں نواز شریف چار ہفتے میں بیرون ملک سے علاج مکمل کروا کر عدالت میں پیش ہو جائیں گے مگر میاں نواز شریف کو واپس آنا تھا نہ آئے اور چار برس تک ملک سے مفرور اور اشتہاری رہے مگر میاں شہباز شریف سے یہ پوچھنے کی جرأت ہمارا نظام انصاف آج تک نہیں کر سکا کہ آپ نے جس کی ضمانت دی تھی وہ واپس نہیں آیا تو کیوں نہ آپ کو اس کی جگہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھجوا دیا جائے، بلکہ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ جس روز خود میاں شہباز شریف کے خلاف بدعنوانی کے الزام میں فرد جرم عائد ہونا تھی عین اسی روز انہیں ملک کے وزیر اعظم کا منصب سونپ دیا گیا۔ پھر اس کے بعد ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف ایک کے بعد دوسرا مقدمہ جھوٹا اور بے بنیاد ثابت ہوتا چلا گیا… ملزموں اور مجرموں کے تختہ دار کی بجائے تخت اقتدار پر براجمان ہونے کی ایسی نادر مثالیں دنیا کے دیگر ممالک میں شاید ہی تلاش کی جا سکیں… اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی عدالتیں، میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر عدالتوں کو جھوٹی بیماری کا دھوکا دینے اور چار ہفتے کی ضمانت پر چار سال تک عدالتوں سے مفرور رہنے کے الزامات پر ان کے خلاف کارروائی کرتی ہیں یا حفاظتی ضمانت اور وارنٹ گرفتاری کی معطلی کے پروانوں کی طرح تمام نئے پرانے مقدمات اور الزامات سے باعزت بریت کے اعزاز کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر چوتھی بار متمکن ہونے کی راہداری عطا کرتی ہیں…!!!
آئین میں طے شدہ نوے دن کی مدت سے تجاوز کے حوالے سے پہلے سے متنازعہ نگران وفاقی و صوبائی حکومتوں کا کردار بھی میاں نواز شریف کی شاہانہ واپسی کے ضمن میں شکوک و شبہات کی زد میں ہے یہ تاثر عام ہے کہ موجودہ نگران حکومتیں چودہ جماعتی اتحاد کی سبکدوش شہباز شریف حکومت ہی کا تسلسل ہیں، اس تاثر کو نگران وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے نواز شریف کے استقبالیہ پروگراموں کو سرکاری سطح پر فراہم کی جانے والی سہولت کاری سے مزید تقویت حاصل ہوئی ہے۔ محسوس یوں ہو رہا ہے کہ اس وقت پاکستان خصوصاً وطن عزیز کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صرف نواز لیگ نام کی سیاسی جماعت ہی اپنا وجود رکھتی ہے جسے انتظامیہ کے ہر شعبے میں مکمل بالادستی حاصل ہے، صوبائی حکومت اور انتظامی مشینری کا طرز عمل واضح طور پر یک طرفہ دکھائی دے رہا ہے جس کی ایک تازہ مثال انہی دنوں اس طرح سامنے آئی کہ ایک جماعت کو تو فلسطین کے مجبور مظلوم اور محصور مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے لبرٹی چوک گلبرگ لاہور میں محدود جگہ پر جلسہ کرنے کی اجازت دینے سے ضلعی انتظامیہ نے انکار کر دیا جب کہ دوسری طرف اسی ضلعی انتظامیہ نے مسلم لیگ ن کو مینار پاکستان کے وسیع و عریض میدان میں اپنی سیاسی قوت کے بھر پور مظاہرہ کی نہ صرف بخوشی اجازت دے دی بلکہ ہر طرح کا تعاون اور سہولت کاری بھی حکومت کی جانب سے مہیا کی گئی… نگران حکومت کا یہی یکطرفہ رویہ ہے جس کے سبب عام لوگ اب یہ تبصرہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ متوقع عام انتخابات کا مقصد ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی اور اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرنا ہر گز نہیں بلکہ انتخابات اگر ہوئے تو ان کا مقصد مقتدر حلقوں سے سودے بازی میں کامیاب رہنے والی مخصوص جماعت کو ایوان اقتدار تک پہنچانے کے سواکچھ نہیں ہو گا۔ ان حالات میں اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ مقتدر حلقوں کی طرف سے خود کو سیاست سے قطعی لاتعلق رکھنے کا جو اعلان عمران خاں حکومت کے خاتمہ کے وقت کیا گیا تھا، اس اعلان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ عوام کا سیاست اور جمہوریت پر اعتماد بحال ہو سکے اور ملک کے مقتدر اداروں اور رائے دہندگان کے مابین پائی جانے والی خلیج ختم ہو سکے…!!!