کوئی کسان اپنے گدھے کو گھر کے سامنے باندھنے کے لیے ہمسائے سے رسی مانگنے گیا تو ہمسائے نے انکار کرتے ہوئے کہا، رسی تو نہیں ہے میرے پاس، مگر ایک بات بتاؤں، جا کر عمل کرو تو رسی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہمسائے نے کہا کہ تم ایسا کرو، اپنے گدھے کے پاس جا کر بالکل ایسی حرکتیں کرو جیسے رسی کو گردن میں ڈال کر کستے اور پھر کھونٹی کے ساتھ باندھتے ہیں، دیکھنا گدھا بغیر کوئی حرکت کیے ویسے ہی کھونٹے کے پاس کھڑا رہے گا۔ کسان نے گدھے کے پاس جا کر ہمسائے کی نصیحت پر عمل کیا اور گھر میں جا کر سو گیا۔ دوسری صبح باہر جا کر دیکھا تو گدھا ویسے کا ویسا کھونٹے کے پاس بیٹھا ہے۔ کسان نے گدھے کو ہانک کر کام پر لے جانا چاہا تو نئی افتاد آن پڑی۔ گدھا اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نہ ہوا۔ کھینچنے، زور لگانے اور ڈنڈے برسانے سے بھی کام نا بنا تو ہمسائے سے جا کر کہا، بھئی تیری نصیحت باندھ دینے تک تو ٹھیک تھی مگر اب میرا گدھا کام پر جانے کے لیے تیار ہی نہیں ہے اور باوجود پوری کوشش، ہل ہی نہیں رہا ہے، بتا اب کیا کروں۔ ہمسائے نے پوچھا، آج کام پر جانے سے پہلے کیا تو نے اس کی گردن سے رسی کھولی تھی۔ کسان نے حیرت سے کہا، کون سی رسی، میں نے تو بس رسی باندھنے کی اداکاری کی تھی، اصل رسی تھوڑی باندھی تھی۔ ہمسائے نے کہا، ہاں تیرے نقطہ ٔ نظر سے تو رسی نہیں ہے، مگر گدھے کے حساب سے تو رسی بندھی ہوئی ہے ناں۔ کسان نے واپس جا کر گدھے کی گردن سے اور بعد میں کھونٹے سے رسی کھولنے کی اداکاری کی، اس بار گدھا بغیر کسی مزاحمت کے مالک کا کہنا مانتے ہوئے کام پر چلا گیا۔
میرے بچپن بلکہ بہت ہی چھٹپن کے زمانے کی بات ہے، محلے کے ایک جوان لڑکے کے پاؤں کے انگوٹھے پر سانپ نے کاٹ لیا۔ گھر والوں نے عقل مندی سے کام لیتے ہوئے پیر پر ٹخنوں سے کچھ اوپر کس کر رسی باندھ دی۔ شاید کسی سے سن رکھا ہوگا کہ ایسا کرنے سے زہر جسم میں پھیلنے سے رک جاتا ہے۔ قریب ہی بہت مشہور بابا کا مزار تھا۔ وہاں اس جوان لڑکے کو لے جایا گیا۔ سنا تھا کہ بابا سانپ کے زہر کو بدن سے نکالنے کے ماہر ہیں۔ بابا نے سانپ کے لگائے گئے زخم کا جائزہ لیا، کچھ پڑھا، پھونکا اور زخم پر تھوک کر لواحقین کو حکم دیا کہ رسی کھول دی جائے۔ رسی کا کھولنا تھا، زہر پورے جسم میں اتنی سرعت کے ساتھ پھیلا کہ چند منٹ کے اندر ہی اندر اس کا انتقال ہو گیا۔
بسلسلہ ملازمت میرا ایک گاؤں میں رہنا ہوا۔ جس زمیندار کا گھر کرائے پر لیا ہوا تھا اس نے حسب ِ روایت مال مویشی پالے ہوئے
تھے جس میں دو عدد بکریاں بھی تھیں۔ صبح جب آفس جارہا تھا تو میں نے زمیندار کی بیوی کو بہت اداس اور پریشان دیکھا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ رات ایک بکری پر فالج کا اثر ہو گیا ہے اور اب وہ نہ تو اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہے اور نہ ہی منہ سختی سے بند ہو جانے کی وجہ سے کھا پی سکتی ہے۔ میں نے کہا کہ کسی ڈنگر ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ، کہنے لگی قریب میں ایک بڑے پیر صاحب ہیں، ہر سال ان کا عرس بڑے دھوم دھام سے ہوتا ہے، لاکھوں خلقت جمع ہو جاتی ہے، ان کا بڑا نام ہے وہاں جا کر کوئی تعویز لے کر آتی ہوں۔ میں اس کی بات سن کر خاموش رہنے کے علاوہ اور کیا کر سکتا تھا۔ سمجھانے کا مطلب گھر خالی کردینا بھی ہو سکتا تھا جس کو میں کم سے کم سزا بھی کہہ سکتا ہوں۔ لہٰذا وہاں سے اٹھا اور چپ چاپ آفس چلا گیا جو پیدل ہی کے فاصلے پر تھا۔ شام کو لوٹا تو وہ باہر ہی بیٹھی تھی، پوچھا کہ وہ پیر صاحب کے پاس گئی تھی، کہنے لگی ہاں، پھر پیر صاحب نے تعویز دیا، کہنے لگی نہیں، پیر صاحب نے کہا ہے کہ تعویز لکھنے کے لیے موٹے تازے بکرے یا موٹی تازی بکری کے خون کی ضرورت پڑے گی۔ میں نے کہا کہ پھر کیا صلاح ہے، کہنے لگی کل صبح میں اپنی دوسری بکری لے کر جاؤں گی تاکہ اس کے خون سے پیر صاحب تعویز لکھ سکیں۔ اس بار میں نے کسی
بھی مصلحت پسندی کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دیا اور زمیندارن سے کہا اگر میں غلط نہیں تو تمہاری جس بکری پر فالج نے حملہ کیا ہے وہ شاید پھر بھی بچ جائے لیکن وہ بکری جو بالکل تندرست و توانا ہے وہ تو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گی اس لیے برائے مہربانی تم بیمار بکری کی جو خدمت ہو سکتی ہے کرو لیکن خدا کے لیے بالکل تندرست بکری کو تو اپنے ہاتھوں کسی کے حوالے نہ کرو۔ یہ سن کر وہ چپ سی ہو گئی۔
اگلی شام جب میں آفس سے لوٹ رہا تھا تو زمیدارن گھر کے باہر ہی بیٹھی تھی۔ پوچھنے پر کہنے لگی کہ میں تعویز بنانے کے لیے اپنی دوسری بکری پیر صاحب کے حوالے کر آئی تھی جس نے ایک تعویز بنا کر مجھے دیا ہے جو میں نے بکری کے گلے میں لٹکا دیا ہے۔ میں زمیدارن اور بیمار بکری کے حق میں دعا ہی کر سکتا تھا۔ رات ہی کو زور زور سے بین کرنے کی آوازیں مجھے بیمار بکری کے مر جانے کی خبریں سنارہی تھیں۔
اوپر بیان کردہ کسان اور گدھے کے قصے میں کسی گدھے کے اس رویے پر ہنسنے، مذاق اڑانے یا سر پیٹ لینے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم اکثر لوگ اسی قسم کے عقائد، رسم و رواج اور خوف کی نظر نہ آنے والی رسیوں سے جکڑے ہوئے ہیں۔ جب تک ہم ان ساری رسیوں کو اپنی سوچوں اور دل و نظر سے کاٹ پیٹ کے الگ نہیں کردیں گے ہم ’’پیدا گیروں‘‘ کے ہاتھوں لٹتے اور برباد ہوتے رہیں گے خواہ وہ پیداگیر سیاسی ہوں یا مذہب کے لبادے زیبِ تن کیے ہوئے ہوں۔