اے ابن آدم مہنگائی، مسائل، غربت اپنے عروج پر ہے اور سوائے جماعت اسلامی کے ہر سیاسی جماعت ستو پی کر سو رہی ہے۔ جمعرات کی رات میں کلینک جانے کے لیے نیو کراچی سندھی ہوٹل پر اُتر گیا تو وہاں جماعت اسلامی کے دھرنے کے حوالے سے عوامی خطاب چل رہا تھا۔ بدھ کے روز میرا کالم بجلی کی کہانی ابن آدم کی زبان روزنامہ جسارت میں شائع ہوا، مجھے نہیں معلوم کہ لوگ مجھے پڑھتے ہیں، مجھے جانتے ہیں، جو صاحب استقبالیہ کیمپ میں اپنے خطاب میں کے الیکٹرک کی لوٹ مار کی بات کررہے تھے جب اُن کی مجھ پر نظر پڑی تو مجھے سلام کرنے کے بعد اعلان کیا کہ ممتاز کالم نگار بانی ابن آدم تحریک ڈاکٹر شجاع سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ تشریف لائیں اور اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کریں۔ میں کیونکہ ویب چینل کی دنیا کا سینئر ترین اینکر ہوں اور راہ ٹی وی پر میرا ہر ہفتہ پروگرام آواز ابن آدم نشر ہوتا تھا۔ مظفر اعجاز صاحب کی کرم نوازی سے وہ میرے استاد بھی ہیں پھر جب میں نے خطاب شروع کیا اور عوامی مسائل اور جماعت اسلامی کے کردار پر روشنی ڈالی تو وہاں موجود جماعت اسلامی کے کارکن اور بڑی تعداد میں موجود عوام نے تالیاں بجا کر میرے خطاب کو سراہا۔ اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔
ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ پاکستان کی تقریباً 40 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور گزشتہ ایک سال جس میں پی ڈی ایم کی حکومت تھی مزید 12.5 ملین افراد یعنی سوا کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے چلے گئے۔ اس طرح پاکستان کی مجموعی آبادی میں سے 9 کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ 2018ء میں پاکستان میں غربت کم ہو کر 37.5 فی صد سے 34.3 فی صد پر آگئی تھی لیکن اُس کے بعد غربت میں مسلسل اضافہ ہونے لگا اور یہ غربت 39.4 فی صد تک پہنچ گئی۔ ورلڈ بینک نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان غربت کی شرح میں بھارت اور بنگلادیش سے بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ ورلڈ بینک نے تجویز دی ہے کہ پاکستان غربت میں کمی کے لیے زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگائے اور بے جا اخراجات میں کمی کرے جبکہ آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے بھی غریب عوام کو تحفظ اور امیروں پر ٹیکس لگانے پر زور دیا مگر اب تک حکومت کی طرف سے کوئی اقدام سامنے نظر نہیں آیا۔ جاگیردار ٹیکس دینے کو تیار نہیں، پارلیمنٹ جاگیرداروں کی بنتی ہے، لہٰذا کوئی زراعت پر ٹیکس لگانے کی بات نہیں کرتا۔ اگر صرف 9 کروڑ غیر مراعات یافتہ غریب طبقہ اگر اس الیکشن میں یہ عہد کرلے کہ اس مرتبہ وہ جماعت اسلامی کو ووٹ دے تو اُن کے لیے کوئی کام ہوسکتا نہیں تو وہ 2 وقت کی عزت کی روٹی کے محتاج ہوجائیں گے۔
ملک کی معاشی حالت، بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ آکر گزشتہ 2 سال میں 18 لاکھ سے زائد افراد روزگار کی تلاش میں پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں، اب تو غربت کی وجہ سے بھکاری بھی بھیک مانگنے بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ دبئی سعودی عرب میں تو ہر غریب ملک کے بھکاری آپ کو نظر آئیں گے۔ تھوک کے حساب سے یہ بھکاری ڈی پورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کو ملنے والا حج کوٹا پورا استعمال نہیں ہوا جو حج 5 لاکھ میں ہوتا تھا وہ 12 لاکھ سے بھی اُوپر چلا گیا۔ جو عمرہ 3 سال پہلے ایک لاکھ میں ہوتا تھا آج 3 سے 4 لاکھ میں ہورہا ہے۔ مرغی 500 روپے سے اوپر جارہی ہے، پیاز 150 روپے کلو، آلو 120 روپے کلو، ادرک 1400 روپے کلو۔ یہ پیاز 100 روپے کی 3 کلو چند ماہ پہلے تک فروخت ہورہی تھی اور آلو 100 روپے کے 2½ باآسانی مل رہے تھے۔ سرسوں کا تیل 500 روپے کلو، چاول 400 روپے کلو۔ ہمارے ملک میں ادارے موجود ہیں مگر کوئی کام کرنے کو تیار نہیں جس کی جو مرضی وہ ریٹ وصول کررہا ہے۔ غریب تو بادام، پستے، چلغوزے کھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مرغی والوں کی بدمعاشی کا یہ عالم ہے کہ ریٹ لکھتے ہیں 460 اور آگے RB چھوٹا سا لکھ دیا جاتا ہے، آپ جب اُس سے جا کر ریٹ پتا کرتے ہیں تو وہ 560 بتاتا ہے، آپ کہتے ہیں تم نے تو لکھا ہوا ہے 460 روپے کلو تو وہ کہتا ہے نیچے لکھا ہے RB۔ آپ نے کہا کہ بھائی RB کا کیا مطلب ہے تو فرماتا ہے ران اور بازو کا گوشت۔ یہ چور بازاری ہر جگہ نظر آتی ہے، اس کے علاوہ گوشت کا وزن بڑھانے کے لیے مرغی کے گوشت کو سوڈے کے پانی میں ڈالا جاتا ہے۔ یہی حال گائے کے گوشت کا ہے، کسی جگہ ہڈی والا 750 روپے کلو، تو کسی جگہ 850 روپے کلو، تو کسی جگہ 900 روپے کلو۔ بکرے کا گوشت 1200 روپے سے 1800 روپے کلو تک میں فروخت ہورہا ہے۔ مشہور دودھ والے 280 روپے کلو میں لکھ کر دودھ فروخت کررہے ہیں تو کسی جگہ 200 روپے کلو میں فروخت ہورہا ہے۔ ملاوٹ والا دودھ، غیر معیاری میں کوئی اُن سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ چائے کی پتی کے اور خشک دودھ کے ریٹ آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ پتی میں ملاوٹ، مسالحوں میں ملاوٹ ابن آدم بیمار نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔
کمشنر صاحب اور اُن کے ماتحت افسران اور عملے کی آخر ڈیوٹی کیا ہے۔ سارے دن اے سی کے کمروں میں بیٹھ کر اوپر والوں کی غلامی کرنا۔ ارے کیا مرنا نہیں ہے اللہ کو جواب نہیں دینا جس کو دیکھو راتوں رات امیر بننے کے چکر میں لگا ہے، چاہے اس کو ضمیر فروخت ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ دوسری طرف بجلی کے نرخوں میں اضافے کے باعث مہنگائی کی شرح ستمبر میں 31.44 فی صد ہوگئی ہے جو کہ چار ماہ کی بلند ترین شرح ہے۔ درآمدات پر عائد پابندیوں میں نرمی اور سبسڈی کے خاتمے سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ ہر ماہ آنے والا بل صارفین کے لیے 440 وولٹ کے جھٹکے سے کم نہیں۔ نیپرا تو عوام کا سب سے بڑا دشمن ادارہ بن چکا ہے جو ہر ماہ عوام کی کھال کھینچ رہا ہے، عوام روز مرتے ہیں مگر حکام وقت چاہے وہ نگراں ہی کیوں نہ ہوں سکون کی نیند سو رہے ہیں اور عوام کی راتوں کی نیند حرام کرکے رکھ دی ہے۔ نیپرا نے ایک بار پھر سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 3 روپے 28 پیسے بجلی مہنگی کرکے صارفین پر 159 ارب کا اضافی بوجھ ڈال دیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ اصل بل کے ساتھ درجنوں ٹیکس ادا کرنا پڑتے ہیں۔ مفت بجلی اور بجلی چوری کا خمیازہ بھی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف آٹے کی قیمتوں میں 88 فی صد اضافہ ہوچکا ہے۔ اس وقت روزگار نام کی چیز نہیں ہے، ایک صاحب نے 4 لاکھ میں گریڈ 1 کی نوکری حاصل کی ہے یعنی چپڑاسی کی نوکری کے لیے 4 لاکھ رشوت۔ یہ نوکری اُن کو واٹر بورڈ میں ملی ہے اور جس نے یہ کام کیا وہ پیپلز پارٹی کا جیالا ہے۔ تنخواہ دار اور دہاڑی دار طبقہ اور صحافی حضرات اس ساری بدحالی سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ سفید پوش طبقہ تو جیسے مر ہی گیا ہے۔ حکومت نے مزدوروں کی کم از کم تنخواہ 32 ہزار مقرر کی ہے۔ کیا کوئی سرمایہ دار اس پر عمل کررہا ہے۔ آج بھی 12 ہزار سے لے کر 20 ہزار تک تنخواہوں پر لوگ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اب تو لوگ سوشل میڈیا پر آرمی چیف اور چیف جسٹس صاحب سے فریاد کرتے نظر آتے ہیں۔
عوام آرمی چیف سے مطالبہ کررہے ہیں کہ جس طرح سے آپ نے ڈالر پر قابو پایا ہے اس طرح سے مہنگائی کو بھی قابو کریں۔ اللہ کرے کہ دونوں چیف مل کر ابن آدم کے مسائل کا کوئی حل نکالیں۔ اگر صرف بجلی کے یونٹ کے ریٹ 10 روپے ہوجائیں، تمام سلیب اور ظالمانہ ٹیکس ختم ہوجائیں تو بھی یہ عوام کے لیے ایک بڑا ریلیف ثابت ہوسکتا ہے۔ مزدوروں کی 32 ہزار اجرت پر فوری عمل کروانے کی ضرورت ہے، نہیں تو یہ نوحہ سلام آخر نہ بن جائے۔