سیاسی آفات

746

کہتے ہیں زمینی آفات قدرت کا سب سے بڑا عذاب ہوتی ہیں مگر وطن عزیز میں معاملہ کچھ الگ ہی ہے، یہاں زمینی آفات کم اور سیاسی آفات زیادہ مسلط ہوتی ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان مملکت خداداد ہے، اس لیے زمینی آفات کم آتی ہیں، پاکستان معاشی اعتبار سے ایک کمزور ملک ہے مگر ان دنوں معیشت بستر مرگ پر پڑی ہوئی ہے، اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کی صحت کی بحالی کے لیے عوام کا خون اس کی رگوں میں بھرا جارہا ہے، اس صورتحال نے عوام کو ادھ موا کر دیا ہے، یہ سلسلہ مزید چلتا رہا تو معیشت کی بحالی خواب بن جائے گی، اس پس منظر میں فیصلہ کیا گیا کہ جن طبقوں کو مفت بجلی، مفت پٹرول اور دیگر ناجائز سہولتیں اور مراعات دی جارہی ہیں اسے شجر ممنوع قرار دے دیا جائے تو نہ صرف معیشت بحال ہو جائے گی بلکہ پاکستان اقوام عالم میں ایک باوقار ملک بن جائے گا، ملکوں ملکوں پھر کر قرض کے نام پر امداد لینے والے ممالک کی صف سے نکل کر قرض دینے والے ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا، یہ فیصلہ مفت خوروں کو پسند نہ آیا، سو انہوں نے حکومت کو باور کرایا اگر بجلی چوروں کے گرد احتساب کا گھیرا تنگ کر دیا جائے تو پاکستان کی خوشحالی کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے، حکومت کو یہ تجویز بہت پسند آئی، کیونکہ بجلی چوروں کے خلاف کیے جانے والے اقدامات سے عوام کی توجہ ہٹ جائے گی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت میں ایسا کوئی شخص موجود نہیں جو سمجھاتا کہ بجلی چوروں سے زیادہ بجلی کی مفت فراہمی تباہ کن ہے، پہلے بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا جائے تو چھوٹی مچھلیاں خود بخود جال میں پھنس جائیں گی، مگر مفت خوروں کی تجویز بلکہ سازش کامیاب رہی، اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ بجلی کی چوری واپڈا اہلکاروں کی سہولت کاری کے بغیر ممکن ہی نہیں، مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، اگر یہ مفت خوری بند نہ کی گئی تو عوام ان کے منہ بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
افغانستان ہمارا برادر ملک ہے مگر اس کا رویہ برادرانِ یوسف جیسا ہی رہا ہے، پاکستان میں ڈالر کو قوتِ پرواز دینے میں افغانیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے، یہ یہاں سے ڈالر خرید کر افغانستان بھیجتے رہے۔ چینی، آٹا، گھی اور دیگر اشیاء کی مہنگائی میں بھی افغانیوں کا ہاتھ ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومتی ادارے کیا کررہے ہیں، وہ اسمگلنگ کی سہولت کاری کیوں کررہے ہیں۔
ملک کے اداروں پر حملہ کرنے اور اسمگلنگ کرانے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ان کے سہولت کاروں نے غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ فیصلہ کرایا گیا ہے، کیونکہ افغانی تو قیام پاکستان سے پہلے بھی یہاں موجود تھے، سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی دوسرے ملک کا شہری پاکستان میں قیام پزیر ہو جائے تو اس کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے، یادش بخیر ایک بھارتی مسلمان لاہور آیا اور یہیں پر قیام پزیر ہو گیا اور اپنی محنت کے بل بوتے پر پھلوں کی دکان کا مالک بن گیا، شادی کی، بچوں کو تعلیم دلائی، اس کی ایک بیٹی پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ تھی کسی رشتے دار نے اپنے فرزند کے لیے اس کا رشتہ مانگا تو اس نے کہا کہ میری بیٹی ایم اے کررہی ہے، اور تمہارا بیٹا کالا کلوٹا ہونے کے باوجود چِٹا ان پڑھ ہے، رشتے کے طلب گار نے اس کے خلاف درخواست دی کہ وہ ہندوستانی ہے، پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہے، پولیس نے تحقیق کی اور گرفتار کر کے اس کا چالان عدالت میں پیش کر دیا، عدالت نے آٹھ سال قید بامشقت اور ملک بدری کا حکم سنا دیا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان انڈین مسلمانوں کے لیے معرض وجود میں آیا تھا پھر ایک انڈین مسلمان کو ایسی سزا کیوں دی گئی، جس نے اس کا خاندان تباہ کر دیا، بچے پاکستانی شہری قرار پائے مگر ان کا باپ پاکستانی رہا نہ ہندوستانی، بھارتی مسلمانوں کو سزا دی جاسکتی ہے تو افغانی شہری پاکستان میں کیوں اور کیسے قیام کر سکتے ہیں، بدنصیبی یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ ان کی ڈفلی پر احتجاج کا راگ الاپ رہے ہیں۔