9مئی کے واقعات کے پیش ِ نظر اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ انصاف کیا گیا تو اس پر پابندی لگ سکتی ہے اور عمران خان سیاست سے کلین بولڈ ہو سکتے ہیں، اس تناظر میں ایک مخصوص طبقے کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف پر پابندی لگائی گئی تو یہ انتقامی کارروائی ہو گی، اور عمران خان کو سیاست سے بے دخل کیا گیا تو جمہوریت دشمنی کی بد ترین مثال ہوگی۔ اگر ملکی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ عمران خان کے حامیوں کی سوچ غیر جمہوری، غیر آئینی ہے، اور جہاں تک غیر اخلاقی ہونے کی بات ہے تو اسے اس معاملے کو دور ہی رکھنا چاہیے، کیونکہ جو لوگ عمران خان کی حمایت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں وہ کسی بھی وقت ایڑیوں پر گھوم سکتے ہیں، شنید ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں، وللہ عالم۔
یادش بخیر جب ولی خان کی پارٹی پر پابندی لگائی گئی تھی تو انہی لوگوں نے اس اقدام کی حمایت میں زمین آسمان کے قلابے ملانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اخلاقیات سے عاری لوگوں نے ولی خان کی جماعت پر ملک دشمنی کا الزام لگایا تھا، اور پابندی کو خوش آئند قرار دیا تھا، جبکہ ملک دشمنی کے الزامات محض الزامات ہی تھے، مگر تحریک انصاف پر لگائے گئے الزامات کے ثبوت اور شواہد موجود ہیں، یہ شواہد اتنے ٹھوس ہیں کہ قانونی مو شگافیاں بھی اس میں شگاف نہیں ڈال سکتیں۔ اس حقیقت سے انکار کی قطعا کوئی گنجائش نہیں کہ وطن دشمنی ایک ناقابل معافی جرم ہے، اس جرم سے چشم پوشی اس سے بھی بڑا جرم ہے، اور اس جرم کی حمایت ایک انتہائی سنگین جرم ہے، جس کی سزا گردن زدنی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی، جو لوگ عمران خان کی حمایت میں ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں ان کی اسکول لائف اور موجودہ رہن سہن کی تحقیق بہت ضروری ہے اور اس امکان کو مسترد کرنا بھی جرم ہے کہ ان کٹھ پتلیوں کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے اور ان کو نچانے کی ہدایت کاری کون سر انجام دے رہا ہے، کیونکہ وطن کی محبت ماں کے دودھ کی طرح ساری زندگی خون میں رچی بسی رہتی ہے، جو لوگ ماں کے دودھ کے بجائے ڈبے کے دودھ پر پروان چڑھتے ہیں ان کی حیثیت ڈبے سے زیادہ نہیں ہوتی، اور یہ جو ہر معاملے میں مٹی پائو جانے بھی دو کی گردان ہے اسے بھی ملکی اور سیاسی معاملات سے بے دخل کرنا ہو گا، بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ سیاسی دودھ سے کھٹی ملائی کو نکال باہر کرنا چاہیے، تاکہ سیاسی معاملات میں مٹھاس آسکے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن دانشوروں کو یہ علم ہی نہیں کہ ملائی باسی ہو جائے تو کھٹی نہیں کڑوی جو جاتی ہے، جو لوگ کھٹی اور کڑوی کے مابین فرق نہیں کر سکتے ان کی باتوں پر کیسے عمل کیا جاسکتا ہے، یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ سیاسی معاملات اسی وقت درست سمت اختیار کر سکتے ہیں جب تحمل اور بردباری کا جذبہ اجاگر ہو، مگر جب ہر معاملہ میں مٹی پائو کی روش اختیارکر لی جائے تو وطن کی مٹی قبرستان کی مٹی بن جاتی ہے، افتخارعارف نے کیا عارفانہ شعر کہا ہے کہ
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
المیہ یہ بھی ہے کہ قرض حکمران لیتے ہیں اور اس کی ادائیگی قوم کرتی ہے جب تک حکمرانوں کو واجب الادا قرض اتارنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، عوام بے بس اور مجبورِ محض ہی رہیں گے۔ اس معاملہ میں عدلیہ اپنا کردار ادا کرے تو پاکستان کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکتی ہے، مگر دشمن اور بد خواہ قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان کی معیشت مضبوط ہو، کیونکہ ملکی معیشت مستحکم ہو گئی تو قوم خوشحال ہو جائے گی اور قوم کی خوشحالی نا اہل حکمرانوں کی بدبختی بن جائے گی۔