عالَمی اِقتِصادی مَنظَرنامہ (آخری حصہ)

716

ووسٹرو اکاؤنٹ اور بین الاقوامی تجارت: غور طلب ہے کہ ووسٹرو اکاؤنٹس کو ملکی کرنسی میں ادائیگیاں کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ روپے میں بین الاقوامی تجارتی ادائیگی کا تصفیہ خصوصی روپی ’’ووسٹرو اکائونٹس‘‘ کے ذریعے کیا جائے گا۔ ووسٹرو اکائونٹ انڈین بینکوں میں کھولا جائے گا۔

ووسٹرو اکاؤنٹ کے منفی پہلو: عام طور پر، ووسٹرو اکاؤنٹس روایتی بینک اکاؤنٹس سے زیادہ مہنگے ہوتے ہیں جو سرحدوں کو عبور نہیں کرتے ہیں اور فیس ان کاروباروں کے لیے کافی زیادہ ہو سکتی ہے جو درآمد؍ برآمد مارکیٹ میں یا سامان کی سرحد پار نقل و حمل کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

ڈالَر پر روس و یوکرین بحران کے اثرات: 24 فروری 2022ء کو یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن کے بعد مغربی طاقتوں کی طرف سے روسی معیشت پر پابندیوں کے بعد روس کو امریکی ڈالَر میں ادائیگیاں کرنا مشکل تر ہوتا چلا گیا جس کے نتیجے میں قومی کرنسیوں میں حل تلاش کرنے اور دنیا بھر میں ڈالَر کی کمی کو جنم دیا۔ بنگلا دیش بینک کے زیر غور ایک تجویز ہے کہ انڈین کرنسی کو برآمدات اور درآمدات کے بلوں کے تصفیہ کے لیے ڈالَر کی کمی کو چھلانگ لگانے کی اجازت دی جائے۔ مرکزی بینک کے عہدیدار کا خیال ہے کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان تجارت ڈالَر کے بجائے روپے اور ٹکا میں ہوتی ہے تو فاریکس مارکیٹ میں اتار چڑھائو کچھ حد تک کم ہو جائے گا۔

آج جب کہ عالمی صہیونیت نواز بینکرز کا گروہ غیر محسوس انداز میں روس کے ذریعے امریکا اور مغربی ملکوں کی اسٹاک کمپنیوں پر دھاوا بول رہا ہے، ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چین میں شفٹ کیا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں ڈالَر سَکراتی کیفیت میں اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ عنقریب صہیونی بینکرز کے ذریعے یہ اعلان کردیا جائے گا کہ دنیا بھر میں کاغذی کرنسیوں کو ختم کردیا گیا ہے۔ وہ ممالک جن کی اِقتِصادی صورتحال ڈالَر سے جڑی ہوگی وہ بحرانیت کا شکار ہو جائیں گے۔ اس سازشی و مکر کی چالوں میں سب سے بڑا خمیازہ یا خسارہ تیل پیدا کرنے والے خلیجی عرب ممالک کا ہوگا، کیونکہ ان کی اِقتِصادی صورتحال کا انحصار امریکی بینکوں میں پڑے ڈالَر پر ہوگا۔ ڈالَر اپنی تَنَزّْلی کے ساتھ کاغذ کی بے معنیٰ ردی پیپر کے مترادف ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ہی صہیونیت نواز بینکرز قدم آگے بڑھاتے ہوئے انتہائی جدید ہتھیاروں کے ڈر و خوف کے سہارے خطے کے توانائی کے ذخائر پر قابض ہو جائیں گے، یہ روایتی جنگ کا مرحلہ (conventional war phase) ہوگا۔ عربوں کی دولت پہلے ہی کاغذ کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکی ہوگئی اور اب ان کے تیل پر قبضہ جما کر رہی سہی کسر نکالی جائے گی جس کی وجہ سے یہ خطہ انتہائی خونریزی کا شکار ہوگا اور عرب کا خون بہے گا۔

عصرِ حاضر میں اِقتِصادی نظام میں کرنسیوں کی بحرانی کیفیت کو عروج حاصل ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے، خرابی کو دور کس طور کیا جائے۔ برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقا پر مشتمل پانچ ملکی اِقتِصادی بلاک اپنے اِقتِصادی مفادات کو بہتر طور پر پورا کرنے کے لیے ایک نئی ریزرو کرنسی پر غور و خوض کررہے ہیں۔ نئی کرنسی برکس ممالک کی کرنسیوں کی ٹوکری پر مبنی ہوگی: چین کا یوآن، روس کا روبل، بھارت کا روپیہ، برازیل کا اصلی اور جنوبی افریقا کا رینڈ۔ نومبر 2022ء میں آسیان (ایسوسی ایشن آف جنوب مشرقی ایشیائی ممالک) کی پانچ بڑی معیشتوں انڈونیشیا، ملائشیا، سنگاپور، ملائیشیا اور تھائی لینڈ نے مقامی کرنسی کے تصفیے، سرحد پار ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام کے ساتھ تجارت کے لیے مقامی کرنسیوں کے استعمال کو بڑھانے کے خواہش پر تعاون کرنے پر اتفاق کیا۔

بڑے ملکوں، بینکوں اور ان کی کرنسیوں کو تحفظ فراہم کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ بڑے ملکوں کے بینکوں اور ان کی کرنسیوں کو ترک کرکے مقامی زر مبادلہ کے سسٹم کو فروغ دیا جانا چاہیے، مقامی سطح کے زر مبادلہ سسٹم کو معیشت میں اہم مقام دینے کی ضرورت ہے۔ اس کی کسی حد تک قریبی مثال جرمن ماڈل ہے۔ عوامی بچتوں سے قائم چھوٹے چھوٹے اداروں نے چھوٹے کاروباری اداروں کو خاصی مدد فراہم کی ہے۔ کساد بازاری کے زمانے میں بڑے بینک تو نکل بھاگتے ہیں، چھوٹے ادارے لوگوں کی مدد کے لیے میدان میں رہتے ہیں۔ چھوٹے زر مبادلہ اداروں کو اپنی بقاء کے لیے کسی بیل آئوٹ پیکیج کی ضرورت نہیں ہوتی۔

نظامِ مقایضہ: Barter system: زمانۂ قدیم میں جب کرنسی کا تصور تک نہیں تھا، تب زَرعی معاشرے کا قیام عمل میں تھا۔ اس کے بعد لین دین کے لیے اشیاء کے بدلے اشیاء کا نظام رائج تھا، بھاری بھر کم اناج، دھاتی اشیاء اور دیگر بھاری اور زیادہ حجم والی اشیاء ٹرانزیکشن کے لیے رائج تھی۔ اس نظام کو نظامِ مقایضہ ’’بارٹر سسٹم‘‘ کہتے ہیں۔ آسان الفاظ میں زَر کے استعمال کے بغیر کسی شخص کی اشیاء اور خدمات کا دوسرے لوگوں کی اشیا اور خدمات کے براہ راست تبادلہ بارٹر سسٹم ہوتا ہے۔

بارٹر سسٹم کے کئی فائدے ہیں، یہ نظام سادہ ہے اور ایک ایسی معیشت ہے جو صدیوں سے رائج ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جنہیں قرضوں کی ادائیگی میں دقت کا سامنا ہو یا جن کے پاس ڈالَر میں زرمبادلہ کے ذخائر ناکافی ہو جائیں وہ دیوالیہ ہونے سے پہلے بارٹر سسٹم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مال کے بدلے مال کے تازہ میکانزم، بارٹر ٹریڈ میں کوئی مالیاتی لین دین شامل نہیں ہے کیونکہ یہ صرف دو یا دو سے زیادہ فریقوں کے درمیان سامان یا خدمات کی تجارت ہے۔ بارٹر ٹریڈ میں کس قسم کی طلب و رسد کا سامنا پڑے گا اور جس مال کو بارٹر کرنا ہے، اس کی قیمت کا تعین کس میکنزم کے تحت کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر ہندوستان روس سے خام ہیروں پتھر اور خام پٹرولیم مصنوعات درآمد کرتا ہے، اب روس اس کے بدلے میں ہندوستان سے کیا درامد کرے گا۔

اگلا مرحلہ یہ ہوگا کہ دونوں ملک اپنی اپنی پروڈکٹ کا پیرٹی ریٹ کس فارمولے کے تحت مقرر کریں گے۔ اس سلسلے میں پاک افغان سرکار نئے متعارف کرائے گئے تجارتی طریقہ کار کا تجربہ کررہے ہیں۔ وہ تاجر برادری سے چند ماہ تک رابطے میں رہیں گے اور خطے میں تجارت کے اس نئے نظام پر ان کی رائے لیں گے۔ بزنس ٹو بزنس بارٹر ٹریڈ نظام کی چند ماہ تک نگرانی کے بعد اس کا جائزہ لیں گے اور اگر تاجر اس میں بہتری لانے کے لیے کچھ تجاویز دیں تو نئے نظام میں ترامیم لائی جا سکتی ہیں۔ بزنس ٹو بزنس بارٹر ٹریڈ میکنزم افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ اشیاء کے تبادلے کے ذریعے تجارت کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے تاکہ ملک کے سرحدی علاقوں میں کاروبار کرنے والے تاجروں کو سہولت اور آسانی فراہم کی جاسکے جب کہ بزنس ٹو بزنس تجارتی معاہدہ رسمی طریقہ کار کے طور پر کام کرے گا اور سرحدی علاقوں میں ہونے والی لین دین کا احاطہ کرے گا جہاں بہتر مربوط فریم ورک “Enhanced Integrated Framework” کی کمی کے باوجود تاجروں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی طرح بارٹر ٹریڈ سسٹم میں کاروباری برادری کی سہولت اولین ترجیح ہوگی اور اگر ضرورت محسوس کی گئی تو میکانزم کے کسی بھی حصے میں تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ اس وقت وہاں کی تاجر برادری میں بارٹر ٹریڈ میکنزم کے کام میں کچھ الجھنیں پائی جاتی ہیں لیکن امید کی جا رہی ہے کہ وقت گزرنے کے بعد مسائل حل ہو جائیں گے۔

اسلامی عِلمْ الاِقتِصاد سے آگاہی: عہد نبوی سے لے کر خلافتِ عثمانیہ کے آخری دور تک پیپر، پلاسٹک، ای اور ورچوئل کرنسیوں کا تصوراتی و مصنوعی ذہانت (artificial intelligence) بت کہیں بھی نہیں رہا۔ بلکہ دینار (سونا) اور درہم (چاندی) کے سکے بطورِ کرنسی رائج رہے ہیں۔ اچّھی گزر بسر، آسودہ حالی، دولت مندی، مسرت، شادمانی اس دور کی خوبیاں رہی ہیں۔ سونے اور چاندی کے درہم و دینار کی موجودگی نے انہیں کبھی بھی بیرونی سہاروں کا منحصر یا دست نگر نہیں بنایا۔

اس دور کی اِقتِصادیات اور معیشت نے سونے اور چاندی کی بنیاد پر ایک ترقی پزیر اور معاشی و اِقتِصادی آسودگیاں عام لوگوں کو میسر کروائیں۔ بقول علامہ محمد اقبال:

کس نے باشد در جہاں محتاج کس
نکتہ شرح مبیں این است و بس

(دین کی واضح شرع کا نکتہ یہی ہے کہ دنیا میں کوئی کسی کا محتاج نہ رہے۔)

ہم آگے بڑھیں اور موجودہ سرمایہ دارانہ فرسودہ نظام میں جکڑی ہوئی دنیا کے سامنے اسلام کے بہترین نظامِ اِقتِصادیات و معاشیات کو عیاں کریں۔ دنیا کو بتائیں کہ ملکی سطح پر زائد کرنسیوں کو چھاپ کر کیسے افراطِ زر اور دیگر اِقتِصادی مشکلات کو بڑھایا جاتا ہے۔ جس کا نمونہ آئے دن ہم نئی نئی شکلوں میں دیکھ رہے ہیں۔ خلافت علیٰ منہاج النبوہ کا قیام ہی دنیائے انسانیت کو اس عفریت سے راحت فراہم کرسکتا ہے۔ قدیم دور خلافت کی طرح جدید دور خلافت میں بھی دینار (سونا) اور درہم (چاندی) کی کرنسیوں کو رائج الوقت کیا جائے گا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’آخری زمانے میں دینار (سونا) اور درہم (چاندی) کے سوا ہر چیز اپنی وقعت کھو دے گی‘‘۔ منہج خلافت ہی عصر حاضر میں درپیش معاشی و اِقتِصادی مسائل کا ایک مستحکم اور پائیدار حل ثابت ہوگا۔ عملی طور پر نافذ ہوسکے۔

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دْنیا ہے تری منتظر اے روزِ مکافات؟

اگر ہم چاہتے ہیں کہ دْنیائے انسانیت کو درپیش معاشی و اِقتِصادی بحرانی صورتِ حال سے نجات ملے، سرمایہ دارانہ نظام کا سفینہ رواں نہ رہے، وہ اپنے انجامِ کار کو جا پہنچے تو ہمیں میدان کارزارِ حیات میں قدم تیزی سے بڑھانا ہوگا۔ بحیثیت ِ مسلمان ہمارا منتہائے نظر قرآن و سنّت کی روشنی میں اسلام کے صالح اور متوازن معاشی و اِقتِصادی نظام کو دنیا میں قائم و دائم کرنے والا ہونا چاہیے۔ کیونکہ قرآن کا ’’عِلمْ الاِقتِصاد‘‘ سرمایہ دارانہ سود خوروں کے فرسودہ نظام کے لیے سَمِّ قاتِل ہے۔

چست قرآن؟ خواجہ را پیغام مرگ
دستگیر بندۂ بے ساز و برگ

(قرآن پاک امیر سوداگر یا سرمایہ دار کے لیے موت کا پیغام ہے۔ بے سر و سامان بندے کا مدد گار ہے)

موجودہ حالات ہمیں دستک دے رہے ہیں کہ حکمتِ قرآنی کے نسخۂ کیمیا کو عملی شکل دیں تاکہ انسان کی تاریک رات ختم ہو اور ایک نئی، تابندہ اور پائندہ تر صبح طلوع ہو۔