فل کورٹ کا نتیجہ (آخری حصہ)

725

(۹) چیف جسٹس نے پٹیشن دائر کرنے والوں کے وکلا سے کہا: ’’اس میں عوام کا مفاد کیا ہے اور آپ کے کس بنیادی حق کو سلب کیا گیا ہے، اس کا کوئی معقول جواب اُن کے پاس نہیں تھا، بلکہ ایک وکیل امتیاز صدیقی نے کہا: ’’قانون تو اچھا ہے، مگر یہ قانون پارلیمنٹ کو نہیں، بلکہ عدالت عظمیٰ کو بنانا چاہیے‘‘، تو سوال یہ ہے: ’’کیا پارلیمنٹ پر کوئی اچھا قانون بنانے کی پابندی عائد ہے؟‘‘، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا: ’’3ججوں کا بنچ بنانا عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، تو 17ججوں کا اختیار ایک جج کو دینا کیسے درست ہے؟‘‘۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا: ’’چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہے‘‘، امتیاز صدیقی نے کہا: ’’عدلیہ کو خود اپنے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا چاہیے تھا‘‘۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا: ’’عدالت عظمیٰ نے اپنے ’’رولز اینڈ ریگولیشنز‘‘ یعنی قواعد وضوابط 1980 میں بنائے، ہمیں بہت پہلے ان پر نظرِ ثانی کر کے ان کو بہتر بنانا چاہیے تھا، جو کام ہم تینتالیس سال میں نہ کرسکے، وہ اگر پارلیمنٹ نے کردیا ہے، تو اس میں خرابی کیا ہے‘‘، پس معلوم ہوا: ’’درخواست دہندگان کے وکلا کے پاس کسی سوال کا آئین وقانون کے حوالے سے کوئی قابلِ قبول جواب نہیں تھا، اُن سب کو بندیال یاد آرہے ہوں گے، چنانچہ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا: ’’عدالت عظمیٰ کے بنائے گئے قواعد وضوابط ہماری رہنمائی کے لیے ہیں، یعنی یہ پارلیمنٹ پر حاکم نہیں ہیں‘‘۔

(۱۰) چیف جسٹس نے کہا: ’’ایکٹ آف پارلیمنٹ اور قانون ایک ہیں یا نہیں، اس سوال کی اہمیت کیا ہے، انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا: آپ نے دلائل درخواست کے ناقابلِ سماعت ہونے پر شروع کیے تھے، وہ مکمل کریں، آپ نے درخواست گزاروں کے وکلا پر بات شروع کردی ہے، ہر قانون قابل ِ عمل ہے تاوقتیکہ اُسے غلط ثابت نہ کردیا جائے اور یہ ذمے داری اُن پر ہے جو قانون کو چیلنج کر رہے ہیں، ہمارے پاس ہائی کورٹ سے بھی کم اختیارات ہیں۔ پاکستان میں کئی چیزیں خلافِ آئین ہورہی ہیں، مگر وہ آئین کے آرٹیکل 184/3کے دائرۂ کار میں نہیں آتیں۔ بعض حضرات نے ایکٹ (قانون) اور رولز اینڈ ریگولیشن (قواعد وضوابط) کا سوال اٹھایا، ان کا مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ قواعد وضوابط ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ہم مرتبہ ہیں۔

(۱۱) قانون کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ہماری نظر میں یہ رائے درست نہیں ہے، ایکٹ اپنی اصل ساخت کے اعتبار سے قانون ہے اور اُسے پارلیمنٹ یعنی قانون سازی کے مُجاز ادارے نے بنایا ہے، جبکہ رولز اینڈ ریگولیشن آئین وقانون کے اندر رہتے ہوئے ’’ایگزیکٹیو اختیارات‘‘ سے بنتے ہیں، ایگزیکٹیو جو ضابطہ بناتی ہے، وہ اُسے واپس بھی لے سکتی ہے، بدل بھی سکتی ہے، لیکن ایکٹ آف پارلیمنٹ کو منسوخ کرنے یا اُس میں ترمیم کرنے کے لیے باقاعدہ قانون سازی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ اگر قانون سے کوئی لفظ حذف کرنا ہو یا اضافہ کرنا ہو یا کاما یا فل اسٹاپ ڈالنا ہو تو بھی ایسا قانون سازی کے باقاعدہ طریقے ہی سے ہوسکتا ہے، یہ نہیں کہ قومی اسمبلی کا اسپیکر یا سیکرٹری یا متعلقہ محکموں کا سیکرٹری ازخود ایسا کرلے۔

(۱۲) جسٹس منیب اختر نے عجیب وغریب سوال کیا: ’’بنچ کی تشکیل سے متعلق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی پاور، کیا پارلیمان انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی ہے، پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دے کر عدالت عظمیٰ کی جوڈیشل پاور کو پسِ پشت ڈال سکتی ہے‘‘، ہمیں ان جج صاحبان کی دانش پر حیرت ہے: پارلیمنٹ جب آئین بناسکتی ہے، جس کے تحت آپ کا ادارہ قائم ہے، آئین میں حذف واضافہ کرسکتی ہے، جج صاحبان کی تعداد کم یا زیادہ کرسکتی ہے، آپ کے مشاہروں اور مراعات کا تعیّن کرسکتی ہے، تو قانون سازی کے طریقۂ کار کے مطابق ایسا کیوں نہیں کرسکتی۔

انسان ایک گہرا سمندر ہے، اس کی شخصیت، ذہنی سوچ اور بدلتے ہوئے خیالات کا احاطہ اُس کے خالق کے سوا کوئی نہیں کرسکتا، انسان صرف اپنی معلومات، مشاہدات اور تجربات کے حوالے سے کسی کے بارے میں رائے قائم کرسکتا ہے، جو کُلّی یا جزوی طور پر درست بھی ثابت ہوسکتی ہے اور غلط بھی، قطعی علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ پس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ظاہری تاثّر یقینا اچھا ہے، جو جسٹس عمر عطا بندیال اور ان کے ہم خیال جج صاحبان کے جانب دارانہ اور بعض صورتوں میں عصبیت پر محمول رویوں اور فیصلوں کے ستم رسیدہ تھے، وقتی طور پر انہیں ہوائیں ٹھنڈی محسوس ہورہی ہیں، سکون کا سانس لے رہے ہیں، لیکن جب رفتہ رفتہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی شخصیت کے پرت کھلیں گے تو حقیقت آشکار ہوگی، سرِ دست علامہ اقبال کے اس شعر پر گزارا کیجیے:

دیکھیے اس بحر کی تہ سے، اُچھلتا ہے کیا
گُنبدِ نیلو فری، رنگ بدلتا ہے کیا!

چنانچہ ہم نے ’’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ! ہوشیار باش!‘‘ کے نام سے ایک ٹویٹ کیا تھا، جو حسبِ ذیل ہے:

(۱۳) ’’بہت سے یوٹیوبر اور میڈیا پرسن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بانس پہ چڑھانے کے لیے ایک عرصے سے ماحول بنائے بیٹھے ہیں کہ وہ آئین پسند ہیں، اُصول پسند ہیں، وغیرہ، گویا سب کو نشانِ عبرت بنادیں گے، انہیں معلوم ہے: پرویز مشرف کے بعد کے جسٹس ناصر الملک، جسٹس تصدق حسین جیلانی اور جسٹس انور ظہیر جمالی کے سوا ان کے سارے پیش رو آج اس شعر کی تصویر ہیں:

بیا جاناں! تماشا کن، کہ در انبوہِ جاں بازاں
بصد سامانِ رسوائی، سرِ بازار می رقصم

مفہومی ترجمہ: ’’اے محبوب! آئو! تماشا کرو کہ جانبازوں کے ہجوم میں تمام تر رسوائیوں کے اسباب کے ساتھ سرِبازار رقص کر رہاہوں‘‘۔ اُن کے پیش روئوں نے ایک انتہائی پوزیشن اختیار کر رکھی تھی، اِس کے سبب وہ خود بھی بے آبرو ہوئے، انصاف کا پلڑا بھی واضح طور پر ایک جانب جھکا ہوا نظر آیا اور مُلک بھی بحرانوں کا شکار رہا۔ عدلیہ کا کام توازن قائم کرنا ہے، مگر یہ ادارہ خود ہی غیر متوازن ہوگیا۔ آج ہمارے نظامِ عدل کو توازن کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی نیّا جو کئی برسوں سے طلاطم خیز موجوں میں ہچکولے کھارہی ہے، اس میں ٹھیرائو آئے، ملک سے غیر یقینی کیفیت کا خاتمہ ہو، پرسکون ماحول میں آئندہ قومی انتخابات منعقد بھی ہوں اور معتبر بھی قرار پائیں۔ الغرض گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے ہماری عدلیہ کو صرف ٹیلی ویژن چینلوں پر ٹِکر چلانے کا لا علاج نفسیاتی مرض لاحق رہا، اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس پر پابندی لگادیں تو شاید عدلیہ کا تاثّر بہتر ہو، صرف فیصلوں پر تبصرے کی اجازت ہونی چاہیے‘‘۔

فقہِ اسلامی میں قاضی کے لیے جو اصول وضع کیے گئے ہیں، وہ یہ ہیں:

(الف) قاضی کا فیصلہ عصبیت اور قرابت داری کی بنا پر نہیں ہونا چاہیے، قرابت سے صرف رشتے داری مراد نہیں ہے، قُربت کی اور بھی بہت سی صورتیں ہوتی ہیں، الغرض صرف اور صرف حقانیت کے معیار پر فیصلہ ہونا چاہیے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! عدل پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بن جائو، خواہ یہ گواہی تمہاری ذات یا تمہارے ماں باپ اور رشتے داروں کے خلاف ہو، (فریقِ معاملہ) خواہ امیر ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے، پس تم خواہش کی پیروی کرکے عدل سے روگردانی نہ کرو اور اگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کیا یا پہلو تہی اختیار کی تو اللہ تمہارے سب کاموں سے خوب باخبر ہے‘‘۔ (النسآء: 135) جسٹس بندیال نے ’’آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن‘‘ کو معطل کرنے کے لیے اس آیت کا حوالہ دیا، ہم نے اُسی وقت متوجہ کیا تھا: ’’یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کی باطل تعبیر ہے، اس فرمان کا واضح مقصد یہ ہے کہ حق کا فیصلہ تمہارے ماں باپ اور رشتے داروں کے خلاف بھی آئے، تو اس میں تردّد نہ کرو، جبکہ جسٹس بندیال نے اس کمیشن کو معطل کر کے اپنی ساس صاحبہ بیگم ماہ جبین نون کو تحفظ دیا، کیونکہ اُن کی آڈیو لیک بھی ریکارڈ پر آگئی تھی، یہ سراسر اس آیت کی خلاف ورزی تھی۔

(ب) کبھی حاکمِ یا قاضی کی ذاتی نفرت یا عداوت عدل کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے، اس پر متنبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! اللہ کے لیے (حق پر) مضبوطی سے قائم رہنے والے ہوجائو دراں حالیکہ تم انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے ہو اور کسی قوم کی عداوت تمہیں ناانصافی پر نہ ابھارے،

(ہرصورت میں) عدل کرو، یہ (شِعارِ عدل) تقوے کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمہارے کاموں کی بہت خبر رکھنے والا ہے‘‘۔ (المائدہ: 8) حدیثِ پاک میں ہے: ’’تم میں سے کوئی بھی شخص غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے‘‘۔ ( مسلم)

(ج) عدل کے لیے شہادت ناگزیر ہے اور قاضی محض اپنے علم کی بنیاد پر فیصلے صادر نہیں کرتا، بلکہ عدالتی فیصلے اعترافِ جرم یا شہادتوں پر مبنی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کا اہتمام فرمایا ہے، ارشاد ہوا: ’’جب (اُس کے ہر قول و فعل کو) دو فرشتے حاصل کرلیتے ہیں، جو اُس کے دائیں اور بائیں جانب بیٹھے ہوئے ہیں، وہ جو بات بھی کہتا ہے (اُس کو لکھنے کے لیے) اُس کا محافظ (فرشتہ) تیار رہتا ہے‘‘۔ (ق: 17-18)

(د) منصب عدالت پر فائز حاکم پر ہمیشہ خشیتِ الٰہی طاری رہنی چاہیے کہ ذراسی غفلت سے کسی کا حق تلف ہوسکتا ہے یا کسی کو استحقاق کے بغیر کچھ مل سکتا ہے، نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو، ہوسکتا ہے تم میں سے کوئی فریق اپنا موقف پیش کرنے میں زیادہ حجت باز ہو اور میں (دلائل سن کر) اُس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز اُسے دے دوں، تو(وہ یوں سمجھے کہ) میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں، سو وہ اسے (ہرگز) نہ لے‘‘۔ (بخاری) رسول اللہؐ کو تو اللہ تعالیٰ اشیاء اور معاملات کی حقیقت پر مطلع فرما دیتا تھا، لیکن عام قاضی اور حاکم کا تو یہ مقام نہیں ہے۔ اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ عدالتی فیصلہ قانون کی طاقت سے نافذ تو ہوجاتا ہے، لیکن عند اللہ اس سے حقائق نہیں بدلتے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حقائق کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’(اے رسول!) بے شک ہم نے آپ کی طرف حق پر مبنی کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اُس قانون کے مطابق فیصلہ کریںجو اللہ نے آپ کو دکھایا ہے اور آپ خیانت کرنے والوں کے وکیل (دفاع کرنے والے) نہ بنیں‘‘۔ (النساء: 105) لہٰذا عنداللہ قاضی پر لازم ہے کہ حق اور حقائق پر مبنی فیصلہ کرے اور کسی فریق کی رعایت نہ کرے، خواہ وہ کتنا ہی با اختیار و بارسوخ ہو۔

نوٹ: نوٹ: یہ کالم میں نے 26ستمبرکو امریکا روانگی سے پہلے لکھا ہے، عدالت عظمیٰ میں اگلی سماعت 3اکتوبر کو ہے، اس میں جو بھی پیش رفت ہوگی، اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اس پر واپس آکر لکھوں گا۔